اُردو کی چند جدید طویل نظمیں
از ڈاکٹر ساحل سلہری
اُردو کی چند جدید طویل نظمیں
مثنوی، قصیدے اور مرثیے کی ہیئتوں میں طویل نظم کی رویت تو اردو شاعری میں پہلے بھی موجود تھی لیکن جدید اُردو نظم نگاروں نے اس صنف کے خال وخد سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مغربی نظم کے اثرات کے نتیجے میں بھی اردو میں طویل نظم نگاری کا رجحان پیدا ہوا۔حالیؔ کی نظم ”مدوجزر اسلام“ دور جدید کی پہلی طویل نظم شمار کی جاتی ہے لیکن روایت زدہ اذہان کو حالیؔ کی یہ شعوری کاوش درست نہ لگی۔ حالیؔ کے بعد اقبالؔ ایسے شاعر ہیں جنھوں نے طویل نظم کو ایک توانا آغاز فراہم کیا۔انھوں نے ”شکوہ“،”جواب شکوہ“،”شمع و شاعر“،”طلوعِ اسلام“،”ساقی نامہ“،”خضرِ راہ“،”ذوق وشوق“اور”مسجد قرطبہ“ جیسی نظمیں تخلیق کر کے طویل نظم کی شاہراہ تعمیر کر دی۔اقبالؔ نے ایسی شاہکار نظمیں تخلیق کر کے اِس صنف کو مضبوط بنیاد فراہم کی۔اقبال کے بعد بیشتر شعرا نے طویل نظمیں تخلیق کی ہیں لیکن ضیا جالندھری وہ پہلے نظم نگار واقع ہوئے ہیں جنھوں نے طویل نظم کو جدید شعری تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے نئے قالب میں ڈھالا۔ان کی دو طویل نظمیں ”زمستاں کی شام“ اور ”ساملی“ کو جدید طویل نظم کی روایت میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔
ضیا جالندھری کا اولین شعری مجموعہ ”سر شام“ اگرچہ پہلی بار ۵۵۹۱ء میں شایع ہوا لیکن انھوں نے ”زمستاں کی شام“ ۶۴۹۱ء میں قیام پاکستان سے پہلے تخلیق کی۔ ضیا کی یہ جدید طویل نظم پانچ کانتو پر مشتمل ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ طویل نظم مختلف نظموں کا مجموعہ ہے۔ نظم کا ہر کانتو نظم کو ایسے ہی آگے بڑھاتا ہے جس طرح ایک مصرع بعد میں آنے والے مصرعے کو آگے بڑھنے میں معاونت کرتا ہے۔اِس نظم کے ابتدائی کانتو سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ خزاں کا موسم گزرنے کے بعد ماضی کے تجربات شاعر کے خیالات کی رو میں بہہ رہے ہیں۔ خزاں کوئی مثبت عمل کا استعارہ نہیں لیکن ضیا نے اس استعارے کو مثبت رنگ میں پیش کیا ہے۔ ضیا کی یہ طویل نظم پڑھ کر خزاں کے منفی پہلو اور بدصورتی کا ذرا بھی احساس نہیں ہوتا بل کہ خزاں کی خوب صورتی کا تاثر ابھرنے لگتا ہے۔ ضیا نے دراصل اس بات کا اظہار کیا ہے کہ خزاں بہار ہی کا دوسرا رخ ہے۔ ایک کامیاب شخص بڑھاپے میں بھی غیر مطمئن اور ناآسودگی کا شکار نہیں ہوتا کیوں کہ وہ جوانی میں سرخرو ہو چکا ہوتا ہے۔ایام شباب میں اسے اس بات کا ادراک ہوتا ہے کہ جوانی کے بعد بڑھاپا بھی آئے گا۔ ایسے شخص کے لیے جوانی کے کارنامے بڑھاپے کے لمحات میں تسکین کا باعث بنتے ہیں۔ضیا کی نظم ”زمستاں کی شام“ کا نمونہ دیکھیے:
گزر گئی ہیں خزاں کی گھڑیاں /گزر گئی ہیں تو سوچتا ہوں /عجیب دن تھے،عجیب گھڑیاں تھیں جب نگاہیں /خیال کی چلمنوں سے ماضی کے گوشے گوشے میں جھانکتی تھیں /خزاں کے دن جیسے پختہ سالی میں کوئی اپنی/بھری جوانی کے کارنامو ں سے مطمئن ہو/خزاں کوئی جیسے سہ پہر کی گداز کرنوں میں نیم خوابی/اور اس دل آویز استراحت میں ہلکی ہلکی ہوا کے ہلکورے/دھیرے دھیرے تھپک رہے ہوں /خزاں کے دن بھی عجیب دن تھے
ضیا جالندھری نے اپنی اس نظم میں خزاں کے استعارے میں ماضی کے جس مقام پر نگاہ ڈالی ہے وہ خوب صورت نظر آتا ہے۔ضیا کی نظم میں لفظ خزاں دراصل ایک تلخ حقیقت کا علامتی اظہار ہے جسے ایک دانا اور توانا شخص ہمت وحوصلہ سے برداشت کرتا ہے۔جب وہ لمحہ ئحال میں دور ماضی کی طرف دیکھتا ہے تو خزاں کا موسم اسے خوب صورت دکھائی دیتا ہے۔ضیا جالندھری نے اس نظم میں اس حقیقت کو بے نقاب کیا ہے کہ ہر آنے والادن انسان کے لیے ابتری کا پیغام لے کر آتا ہے۔ انسان کو ایک دکھ کا دریا عبور کرنے کے ساتھ ہی اگلے دکھ کے سمندر کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ضیا کی اس نظم کا آغاز ایک خاموش اور اداس فضا میں ہوتا ہے لیکن ان کی ہنرمندی یہ ہے کہ انھوں نے اس اداس کیفیت کے باوجود سوگواری کا سایہ تک نہیں پڑنے دیا۔ بل کہ قاری کو نظم قرأت کرتے ہوئے طرب وطمانیت کا احساس ہوتا ہے۔ضیا نے لفظ ”زمستاں“ سرد مہری،یخ بستگی،تنہائی، جمود، بے حسی، عمر رسیدگی،زندگی کے خاتمے اور موت کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔
ضیا جالندھری نے ”زمستاں کی شام“ کے علاوہ بھی دو طویل نظمیں لکھی ہیں۔ان کی دوسری طویل نظم”ساملی“ قیام پاکستان کے چھ سال بعد قلم بند ہوئی۔اس نظم میں طبقہ امرا اور طبقہ غربا کی غیر انسانی تفاوت کی عکاسی کی گئی ہے۔یہ نظم ضیا کے شعری مجموعے ”سرِشام“ کی آخری نظم ہے۔ضیا کی تیسری طویل نظم ”ہم“۰۹۹۱ء میں مکمل ہوئی۔ ضیا جالندھری کی جدید طویل نظمیں اپنے داخلی اور خارجی پھیلاؤ کی وجہ سے نمونے کا درجہ رکھتی ہیں۔ وزیر آغا نے ”آدھی صدی کی بعد‘،”ٹرمینس“،”الاؤ“،”اندر کے رونے کی آواز“ اور”اِک کتھا انوکھی“ پانچ طویل نظمیں تخلیق کی ہیں۔ شاعرانہ امیجری اورعلامتی نظام وزیرآغا کے اسلوب کے نمایاں خصائص ہیں۔ان کی نظمیں ہیئتی،موضوعاتی، صوتیاتی،لفظیاتی اور صرفیاتی ونحویاتی حوالے سے بڑی اہم ہیں۔”آدھی صدی کے بعد“ وزیرآغا کی اولین طویل نظم ہے جو انھوں نے انگریزی کے مشہور نظم نگار شیکسپیئرکی نظمAll the world a stageکی طرز پر کہی ہے۔ شیکسپیئر نے اپنی نظم میں ایک آدمی کی زندگی کے مختلف مدارج دکھائے ہیں۔ اس نے عمر کے مختلف حصوں میں پہنچنے والے آدمی کے احساسات،جذبات اور خیالات کو موضو ع بنایا ہے۔وزیر آغا نے تمثیلی انداز کی نظم کو چار مختلف عنوان(”جھرنے“،”ندی“،”دریا“ اور”سمندر“) دے کر علامتی انداز میں بیان کیا ہے۔
وزیر آغا نے اپنے بچپن اور لڑکپن کے زمانہ کو”جھرنے“ کی علامت میں بیان کیا ہے۔ نظم کے اس حصہ میں شاعر نے رات کے آخری پہر کا منظر،پَو پھٹنے کا منظر،پرندوں کی چہکار،دوپہر،دھوپ،دن کا پچھلا پہر،سرشام،رات کی کالی قبا اور پھر نصف شب کا ایک دائروی نظام بنا کر انسانی عمر کے ایک حصے کی روداد پیش کی ہے۔ اس سارے سفر میں انھوں نے تہذیب وثقافت کے نقوش بھی بنائے ہیں۔ نظم کا نمونہ دیکھیے:
شب کا پچھلا پہر /پھڑپھڑاتے ستارے/گھنی گھاس کی نوک پر آسماں /سے اترتی نمی/اور پورب کے ماتھے پہ/قشقے کا مدھم نشاں /بیل گاڑی/مرے گاؤں کی گرم شہ رگ میں /اُترے/معاً بیل گاڑی سے میں کود کر /باہیں کھولے ہوئے اپنے گھر میں /لپک کر گھسوں /ماں کے سینے سے ٹکراؤں /ہونٹوں کے حیرت سے کھلنے کا/اورپَو کے پھٹنے کا منظر/میں دیکھوں
نظم کے پہلے حصہ میں شاعر نے دیہاتی تہذیب وثقافت کے مناظر دکھائے ہیں۔ انھوں نے پنجاب کے دیہاتوں کے رسم ورواج کو اپنے بچپن سے جوڑ کر بیان کیا ہے۔ انھوں نے گرم تنور کی کوکھ میں پکتی ہوئی روٹیاں اور سنہری چنگیروں میں اترتی ہوئی روٹیوں پر جھپٹتے ہوئے بچوں کے پس منظر میں اپنے بچپن کی جھلک دکھائی ہے۔ نظم کے اس حصہ میں شاعر نے دیہاتی کلچر کی منظر نگاری کر تے ہوئے لفظیاتی،معنیاتی اور صوتیاتی آہنگ بڑا خوب صورت بنایا ہے۔ انھوں نے چری،باجرہ اور دھان کی لہلہاتی ہوئی فصلوں کا ذکر بھی بڑی عمدگی سے کیا ہے۔ڈاکٹر وزیر آغا نے ارد گرد کے ماحول کو ایک ناظر کی حیثیت سے دیکھا ہے۔نظم میں ”جھرنا“ میں گاؤں کی معصوم فضاؤں میں پلنے والے بچپن اور بچپن کی خوش گواریادوں کو شاعر نے دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔”جھرنے“ کے بعد یہ طویل نظم ”ندی“ کے عنوان سے آگے بڑھتی ہے۔ بچپن کے بعد جوانی آتی ہے اس لیے شاعر نے جوانی کو ندی سے تشبیہ دی ہے۔ یہ پرشور ندی دراصل ایک شخص کی جوانی ہے۔ ہر آدمی بچپن سے نکل کر جوانی کے زینے پہ قدم رکھتا ہے۔ اس درجے میں انسان کو ہنسنے اور رونے کی کیفیات کا احساس ہوتا ہے۔ اس عمر میں جوش،ولولہ اور تجسس بہت زیادہ ہوتا ہے۔شاعر نے بے فکری اور سرمستی کے ا س دور کے تمام واقعات اور تجزیات کی بازآفرینی کی ہے۔ زندگی کے ہر مسافر کو بچپن،جوانی اوربڑھاپے سے گزرنا ہے۔ جوانی میں انسان ہوش سے زیادہ جوش سے کام لیتا ہے۔
”جھرنے“اور”ندی“ کے بعد نظم کا تیسرا حصہ”دریا“ ہے۔شاعر نے یہاں دریا کا لفظ پختہ عمری کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جس کا ایک سرا جوانی اور دوسرا ادھیڑ عمری سے ملتا ہے۔آدمی عموماً عمر کے اس حصے میں جوش سے نہیں بل کہ ہوش سے کام لیتا ہے۔ اس کا ذہن،رائے،ارادے اور فیصلے بڑے پختہ ہوتے ہیں۔وزیر آغا نے ایک فرد کے ذاتی اور داخلی تجربات کو معاشرے کے اجتماعی تجربات کا روپ دیا ہے۔ نظم کے اس حصے سے یہ ٹکڑا ملاحظہ کیجیے:
دریا مگر مطمئن تھا/گھسے تیز پہیوں،پروں /سیٹیوں کے/لگاتار حملوں سے/محفوظ/پانی کے بے نام دھاروں میں /ڈھلتا/سمندر کی تہ میں /اترنے لگا تھا
جھرنا ندی بنا اور ندی دریا اور دریا سمندر میں ضم ہوا۔شاعر نے اس نظم کو چار علامتوں کے ذریعے آگے بڑھایا ہے۔سوانحی اعتبار سے سمندر بڑھاپے کی علامت ہے۔جھرنا،ندی،دریا اور سمندر کے روپ میں شاعر نے زندگی کے پچاس سالوں کی کہانی بیان کی ہے۔ اس نظم میں وزیرآغا نے سماعت،بصارت اور لمس سے تعلق رکھنے والی امیجری کا استعمال کیا ہے۔انھوں نے زندگی کے مختلف النوع واقعات امیجز کی صورت میں اور متحرک تصویروں کے روپ میں سامنے لائے ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغا کا اختصاص یہ ہے کہ انھو ں نے اپنی نظم میں سوانحی جہت کا عمدہ علامتی اظہار کیا ہے۔ وزیر آغا کی طویل نظم”آدھی صدی کے بعد“ فکری اور اسلوبیاتی اعتبار سے ایک خوب صورت نظم ہے۔
جس جدید طویل نظم نگاری کاآغاز ضیا جالندھری نے ۶۴۹۱ء میں ”زمستاں کی شام“ لکھ کر کیا تھا وہ اب اکیسویں صدی میں شہزاد نیر جیسے نظم نگاروں نے جاری رکھا ہوا ہے۔شہزاد نیر ایسے نظم نگار ہیں جنھوں نے ضیا جالندھری کی طرح اپنے پہلے خالص نظمیہ مجموعے”برفاب“ میں ایک طویل نظم ”خاک“ لکھ کر جدید طویل نظم نگاری کی روایت کو کمزور نہیں پڑنے دیا۔ان کے تیسرے شعری مجموعے ”گرہ کھلنے تک“ میں بھی ایک طویل نظم ”نوحہ گر“ شامل ہے۔جدید طویل نظم نگاری کا جو سلسلہ ضیا جالندھری کی نظم ”زمستاں کی شام“ سے شروع ہوا تھا وہ شہزاد نیر کی نظموں ”خاک“ اور”نوحہ گر“ میں اپنے عروج کو پہنچتا محسوس ہوتا ہے۔ضیا جالندھری کی طویل نظمیں ”زمستاں کی شام“،”ساملی“ اور”ہم“کچھ اس اعتبار سے بھی جدید نظمیں ہیں کہ ان میں آزاد ہیئت کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ضیا سے قبل اقبال نے طویل نظمیں تولکھی ہیں لیکن انھوں نے پابند ہیئتوں کو وسیلہئ اظہار بنایا ہے۔ شہزاد نیر کی جدید طویل نظموں ”خاک“ اور ”نوحہ گر“میں بھی آزاد ہیئت برتی گئی ہے۔یونانی شاعری میں طویل رزمیہ نظمیں لکھنے کا رواج تھا اس سے متاثر ہو کر شہزاد نیر نے اردو میں طویل رزمیہ نظم لکھنے کا کام یاب تجربہ کیا ہے
شہزاد نیر نے اپنی پہلی طویل نظم”خاک“میں دو قدیم ممالک کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں کو موضوع بنایا ہے۔ ان قدیم ممالک کے درمیان لڑی جانے والی جنگوں کے بعد کچھ لوگوں کو ایک صدیوں پرانی لاش ملتی ہے۔یہ لاش مکمل طور پر برف میں لپٹی ہوئی ہے۔ شاعر نے اس لاش کو ایک عسکری کی لاش کے روپ میں پیش کیا ہے جو جنگ کے زمانے میں اپنے ساتھی عسکریوں سے اس وقت جدا ہو گیا تھا جب وہ چار افراد ایک رسے کے ذریعے محاذ جنگ پرر روانہ تھے۔مرکزی کردار سب سے آگے تھا موسم کی یلغار کے باعث پچھلے تینوں عسکریوں نے اپنے ساتھی کی رسی کو کاٹ دیا تا کہ وہ لقمہ اجل بننے سے بچ جائیں۔ اس طرح رسی کٹنے سے وہ عسکری گہری کھائی میں جا گرتا ہے۔پھر کسی وقت اس کے ساتھیوں نے رسہ لٹکا کر اسے آواز دی کی ا سے تھام لے اور اوپر آ جائے،نظم کے اس حصے میں یہاں اجل کے فرشتے کی آواز سنائی دیتی ہے۔وہ برف بنا عسکری ایک مردہ انسان ہے لیکن شہزاد نیر نے کمال ہنرمندی دکھاتے ہوئے اس کی تصویر ایسے بنائی ہے کہ جیسے وہ خود اپنی داستان سنا رہا ہو۔ کھائی میں گرنے والا عسکری رسے تک رسائی حاصل نہ کر سکنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو وصیت کرتا ہے کہ اس کے گھر والوں کو اس کا آخری سلام پہنچا دینا۔نظم ”خاک“ کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
اے اجل/میں نے جی بھر کے بچوں کو دیکھا نہیں /گھر کی دھڑکن کو ترستے ہوئے کان جمنے لگے/میری دھڑکن میں تو گھر کی دھڑکن ملا!/کچھ سلام آخری، کچھ پیام آخری/اپنے پیاروں کی خاطر لکھاتا رہا/میری ماں اور بہنیں،مری آنکھ میں بین کرتی ہیں
شہزاد نیر انسانی جذبات کا گہرا مشاہدہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے اس مرکزی عسکری کی زبان سے انسان کے جذبات و احساسات کی عکاسی کی ہے۔ کھائی میں گرا وہ عسکری زندگی کی آخری گھڑیاں گنتا ہے اور خاک کی بھیک مانگتا ہے کہ اسے مٹی کی ایک چادر اور اپنی دھرتی کی آغوش ہی میسر آ جائے۔ خاک سے خاک کا دوبارہ جڑنا ہی اس نظم کا نقطہ عروج ہے۔شہزاد نیر پاکستانی فوج میں ایک میجر کی حیثیت سے اپنی عسکری زندگی گزار رہے ہیں اس لیے انھوں نے اس طویل نظم”خاک“ میں ایک عسکری کی زندگی کی تصویر کشی ذاتی تجربے کی بنیاد پر کی ہے۔اس نظم میں شہزاد نیر نے جذباتی پیکر تراش کر تمثال کاری کی ہے۔کھائی میں گرے عسکری کو برف موت کی صورت میں نظر آتی ہے۔ ایک عسکری اپنے اہل خانہ کے لیے کس طرح جذبات کا اظہار کرتا ہے۔ایک عسکری کو محاذ پر کن دشواریوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے،انھوں نے ایک فوجی کی زندگی کو فوجی ہی کی زبانی سنا دیا ہے۔انھوں نے نظم میں دلکشی اور حسن پیدا کرنے کے لیے اردگرد کی جزئیات اور برف پوش راستوں کی منظر کشی کی ہے۔اس ضمن میں نظم کا یہ حصہ دیکھیے:
سرد تیزی سے اوپر کو چڑھتی ہوئی/تنگ، پتھریلی،مڑتی ہوئی رہ گزر/برف میں نوک پا سے کھنچا راستہ/آب جو /جانے کن عجلتوں میں چلی/موڑ مڑتے ہوئے/اک ذرا تھم گئی/پھر وہیں جم گئی
شہزاد نیر کی نظم ”خاک“ موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے ایک معیاری طویل نظم کہی جا سکتی ہے۔یہ نظم امیجری کی عمدہ مثال ہے۔شہزااد نیر کی دوسری جدید طویل نظم”نوحہ گر“ سائنسی شعور کی حامل ہے۔ اس نظم میں انھوں نے تخلیقِ کائنات کو سائنسی طرز فکر میں دیکھا ہے۔ انھوں نے کائنات کے آغاز اور اساطیر کی دریافت سے انسانی تہذیب ومعاشرت کو متن کا حصہ بنایا ہے۔یہ نظم تاریخی اور عصری شعور کی آئینہ دار ہے۔ شاعر نے اس نظم میں کائنات کا ابتدا ئی عمل اور دنیا کی تاریخ وتہذیب کا اتقائی جائزہ پیش کیا ہے۔شہزاد نیر نے غاروں کے دور کے انسان کی زندگی کی عکاسی بڑی عمدگی سے کی ہے انھوں نے اس دور کے انسان کی جنسی جبلت اور ستر پوشی جیسے پہلوؤں کو بھی موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے مختلف ادوار میں انسان پر ہونے والے مظالم کا ذکر بڑے جذباتی انداز میں کیا ہے۔انھوں نے خاص طور پر عورتوں سے امتیازی سلوک روا رکھنے کی مذمت کی ہے۔ قدیم دور میں عورتوں کو ان کے خاوندوں کی چتا میں زندہ جلا دیا جاتا ہے۔ شہزاد نیر نے اس طرح کے غیر انسانی رویوں کو موضو ع بنا کر نظم کوآفاقی قدروں سے مزین کر دیا ہے۔نیر نے نادر تشبیہات کا استعمال کر کے انسانی تہذیب و تاریخ کے کئی سفاک روپ پیش کیے ہیں۔انھوں نے ڈھلانوں کے راستے،دھرتی کے گھاؤ،تند ناگن اور زمانے کا لہو کی طرح بہنا جیسی تشبیہات استعمال کر کے نظم میں شعریت پیدا کی ہے۔ انھوں نے قتل وغارت گری کے لیے سرخ برسات کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ شہزاد نیر کی نظم ”نوحہ گر“ کا نمونہ ملاحظہ کیجیے:
جب برہنہ غاروں سے نکلے/تو لاکھوں جتن منتظر تھے/پھلوں سے بھرا ایک جنگل جسے یاد کے/دور گوشوں کی تاریکیوں سے بلانا/ارم اور عدن نام دینا تھا/اس کو وہ خود کاٹنے لگ گئے/گھر بنے اور بستی بنی/غم کی تہذیب کے آشناؤ/سرکتے ہوئے میری آنکھوں میں آؤ/سنو! میں تواریخ کا نوحہ گر ہوں /مجھے اشک گننے کی تفویض ہے/آؤ مجھ سے سنو/کیسے لفظ اور پہیے سے آغاز کر کے/دوپایہ خلا سے اجل پھینکنے لگ گیا!/دیکھتا تھا میں /ان دیکھے حکموں پہ/کم زور ہونے کی پاداش میں /آفتیں ٹالنے کو/مظاہر پہ قربان ہوتی ہوئی ناریاں /ناریاں جو پتی دیوتا کی/پرائی چتاؤں میں ڈالی گئیں
نظم ”نوحہ گر“ میں شہزاد نیر اس طرز زندگی اور غیر انسانی رویوں کا نوحہ لکھا ہے کہ انسان صدیوں سے زر اور زمین کی ہوس میں انسانیت کے ساتھ جابرانہ کھیلتا رہا ہے۔انھوں نے چند مذہبی اعتقادات کا سہارا لے کر انسان پر ہونے والے مظالم کو ایک داستان کی صورت میں بیان کیا ہے۔”نوحہ گر“ اپنی نوعیت کی ااور ایک اہم تمثیلی اور اساطیری نظم قرار دی جا سکتی ہے
ڈاکٹرساحل سلہری