اے حسن مغرور،
اے حسن کے خدا!
آ، نیل کے اس پار چلیں
جہاں تیری حسن آرائی کے سامنے
طاقتور نہنگ و گھڑیال،
ریت پر سر پٹختے
قطرہ قطرہ ٹپکتی جیون کی مدرا
کو ترستے ہیں۔
آ،
اے جوانی کے مندر کے چندرما
دیکھ تیری کشش سے
نیل کی بیکراں موجوں کی لہر لہر سے
اٹھتے بھنور اور مدو جذر
سیلاب الفت سے دھرتی کو سیراب کرتے ہیں،
پیاس پھر بھی نہیں بھجتی۔
دیکھ تیرے حسن کی فرمان روائی میں
چاندنی رات میں
دل تھامے ہات میں
تیرے لبوں سے ٹپکتی
بادہ و صہبا کی سوغات میں
ہر ذی حیات
زندگی ڈھونڈتا ڈھونڈتا
فنا فی جمال ہو جاتا ہے۔
اس طلسم ماہتاب میں
آ! صرف ایک بار
دریائے نیل کے اس پار چلیں
اس بے ثبات رات میں،
لیے ہاتھ ہات میں
اہرام مصر کے پاس میرے یار چلیں
فقط ایک بار چلیں،
یا پھر لکسر کے اس پار
فراعین کی وادی موات میں
صاحب امر، حکام، قوام کا اختتام
شوکت و سطوت وصولت کا انہدام
میرے صنم بے وفا
اے حسن کے خدا!
بس تمہیں ایک بار
خداؤں کی کبر و نخوت کا انجام
دیکھانا چاہتا ہوں۔
سید محمد زاہد