اردو نظمحفیظ جالندھریشعر و شاعری

ابھی تو میں جوان ہوں ​

حفیظ جالندھری کی اردو نظم

ہوا بھی خوش گوار ہے ، گلوں پہ بھی نکھار ہے​
ترنّمِ ہزار ہے ، بہارِ پُر بہار ہے​
کہاں چلا ہے ساقیا ، اِدھر تو لوٹ، اِدھر تو آ​
یہ مجھ کو دیکھتا ہے کیا اٹھا سبُو، سبُو اٹھا​
سبُو اٹھا، پیالہ بھر پیالہ بھر کے دے اِدھر​
چمن کی سمت کر نظر ،سماں تو دیکھ بے خبر​
وہ کالی کالی بدلیاں افق پہ ہو گئیں عیاں​
وہ اک ہجومِ مے کشاں ،ہے سوئے مے کدہ رواں​
یہ کیا گماں ہے بد گماں ، سمجھ نہ مجھ کو ناتواں​
خیالِ زہد ابھی کہاں ابھی تو میں جوان ہوں​
عبادتوں کا ذکر ہے ،نجات کی بھی فکر ہے​
جنون ہے ثواب کا ،خیال ہے عذاب کا​
مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی​
بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی​
حسین جلوہ ریز ہوں ،ادائیں فتنہ خیز ہوں​
ہوائیں عطر بیز ہوں ، تو شوق کیوں نہ تیز ہوں​
نگار ہائے فتنہ گر ،کوئی اِدھر کوئی اُدھر​
ابھارتے ہوں عیش پر ،تو کیا کرے کوئی بشر​
چلو جی قصّہ مختصر ،تمھارا نقطۂ نظر​
درست ہے تو ہو مگر، ابھی تو میں جوان ہوں​
نہ غم کشود و بست کا،بلند کا نہ پست کا​
نہ بود کا نہ ہست کا ،نہ وعدۂ الست کا​
امید اور یاس گم ، حواس گم، قیاس گم​
نظر کے آس پاس گم ،ہمہ بجز گلاس گم​
نہ مے میں کچھ کمی رہے ،قدح سے ہمدمی رہے​
نشست یہ جمی رہے ،یہی ہما ہمی رہے​
وہ راگ چھیڑ مطربا ، طرَب فزا، الَم رُبا​
اثر صدائے ساز کا ، جگر میں آگ دے لگا​
ہر ایک لب پہ ہو صدا ، نہ ہاتھ روک ساقیا​
پلائے جا پلائے جا ، ابھی تو میں جوان ہوں​
یہ گشت کوہسار کی ، یہ سیر جوئبار کی​
یہ بلبلوں کے چہچہے ، یہ گل رخوں کے قہقہے​
کسی سے میل ہو گیا ، تو رنج و فکر کھو گیا​
کبھی جو بخت سو گیا ، یہ ہنس گیا وہ رو گیا​
یہ عشق کی کہانیاں ،یہ رس بھری جوانیاں​
اِدھر سے مہربانیاں ،اُدھر سے لن ترانیاں​
یہ آسمان یہ زمیں ، نظارہ ہائے دل نشیں​
انھیں حیات آفریں ، بھلا میں چھوڑ دوں یہیں​
ہے موت اس قدر قریں ، مجھے نہ آئے گا یقیں​
نہیں نہیں ابھی نہیں ، ابھی تو میں جوان ہوں​

حفیظ جالندھری​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button