ساتھ چلتے جا رہے ہیں پاس آ سکتے نہیں
اک ندی کے دو کناروں کو ملا سکتے نہیں
دینے والے نے دیا سب کچھ عجب انداز سے
سامنے دنیا پڑی ہے اور اٹھا سکتے نہیں
اس کی بھی مجبوریاں ہیں میری بھی مجبوریاں
روز ملتے ہیں مگر گھر میں بتا سکتے نہیں
کس نے کس کا نام اینٹوں پر لکھا ہے خون سے
اشتہاروں سے یہ دیواریں چھپا سکتے نہیں
راز جب سینے سے باہر ہو گیا اپنا کہاں
ریت پر بکھرے ہوئے آنسو اٹھا سکتے نہیں
آدمی کیا ہے گزرتے وقت کی تصویر ہے
جانے والے کو صدا دے کر بلا سکتے نہیں
شہر میں رہتے ہوئے ہم کو زمانہ ہو گیا
کون رہتا ہے کہاں کچھ بھی بتا سکتے نہیں
اس کی یادوں سے مہکنے لگتا ہے سارا بدن
پیار کی خوشبو کو سینے میں چھپا سکتے نہیں
پتھروں کے برتنوں میں آنسووں کو کیا رکھیں
پھول کو لفظوں کے گملوں میں کھلا سکتے نہیں
بشیر بدر