- Advertisement -

یہ کس نے کہا خواب سہانے نہیں آتے

ایک اردو غزل از حسن فتحپوری

یہ کس نے کہا خواب سہانے نہیں آتے
ہاں روٹھے ہوئے لوگ منانے. نہیں آتے

وہ جن سے رہا کرتی تھی ویرانوں میں رونق
صحرا کی طرف اب. وہ دوانے نہیں آتے

اب راہ ہی تکتے ہیں بزرگ اپنے گھروں میں
بچے بھی تو اب ملنے ملانے نہیں آتے

دل تجھ کو دھڑکنے کی اجازت نہیں تب تک
جب تک کہ ترے ہوش ٹھکانے نہیں آتے

اولاد. پہ. آدم کی . ہے. اللہ. کی. رحمت
گندم کے یوں ہی کھیتوں میں دانے نہیں آتے

آنکھیں تو وہ پلکوں میں چھپا لیتا ہے لیکن
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے

مت یاد کرو انکو ‘حسن’ درد ہی دیں گے
پھر لوٹ کے وہ گزرے زمانے نہیں آتے

حسن فتحپوری

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از حسن فتحپوری