یاد تیری مرے تن من میں اترآتی ہے
جیسے تنہائی کسی بن میں اتر آتی ہے
جسم اکثر اسے تکلیف ہی دیتا ہے مگر
روح پھر بھی اسی برتن میں اتر آتی ہے
میری تنہائی میں بٹوارے کا باعث ہے وہی
ایک چڑیا مرے آنگن میں اترآتی ہے
جسم پر بوند شرارے کی طرح پڑتی ہے
یعنی اک آگ بھی ساون میں اتر آتی ہے
میرے اطراف وہ تنہائی ہے جس کے باعث
شامِ غم عالمِ گلشن میں اتر آتی ہے
ربط آئینے سے ہے اور نہ دیے سے میرا
کوئی وحشت ہے کہ دامن میں اتر آتی ہے
ساتھ میں انجم و مہتاب ہیں تو پھر کیسے
یہ سیاہی رخِ روشن میں اتر آتی ہے
وہ کوئی روپ ہے ہے یا دھوپ ہے کوئی اسعد
روشنی جس کی مرے تن میں اتر آتی ہے