نئی ترتیب میں لایا گیا مَیں
قصیدہ تھا ، سو دہرایا گیا مَیں
غزل کا بھید پوشیدہ تھا مجھ میں
کسی مقطع میں رکھوایا گیا مَیں
کوئی کیسے مرا اِنکار کرتا
تِرے ہونٹوں سے فرمایا گیا مَیں
ہوائے زیست ایسی چل رہی تھی
کَل اُس جانب بھی گھبرایا گیا مَیں
وہ شب الہام کی شب تھی سو یارو
کسی معبد میں ٹھہرایا گیا مَیں
میں جھونکا تھا کوئی تازہ ہوا کا
ذرا جلدی میں ہی آیا گیا مَیں
ہُوا تھا جس کے ہاتھوں قتل آزر
اُسی کے ہاتھ نہلایا گیا مَیں
دلاور علی آزر