اب کہ ‘میں تم’ کو مری جان ہمارا کر لوں
تم اگر چاہو تو میں عشق دوبارہ کر لوں
مجھ کو اِس در سے محبت نہ ملی تو نہ سہی
مجھ کو بس ایک جھلک دے کہ گزارہ کر لوں
میں نے سن رکھا محبت کے بھنور کے بارے
ہو اجازت تو میں کشتی سے کنارہ کر لوں
میں نے اس پھول کو سینے کی مہک دی برسوں
کس طرح غیر کے سینے پہ گوارہ کر لوں
میں نے اک عمر گزاری ہے تری چاہت میں
سوچتا ہوں دمِ آخر کوئی چارہ کر لوں
میرے کمرے میں ‘ترے میرے’ نشاں باقی ہیں
رک اجل میں ذرا کمرے کا نظارہ کر لوں
لب و رخسار کجا اس کے کجا میں خستہ
کیا یہ ممکن ہے مری جان اشارہ کر لوں
ذیشان احمد خستہ