میں چھوٹی سی لڑکی بہت ہی بڑی ہوں
کہ ہر جنگ اپنی ا کیلی لڑی ہوں
بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں
ہوا کے ورق پر لکھی اک غزل تھی
خزاں آئی تو شاخ سے گر پڑی ہوں
ملی ہیں مجھے لحظہ لحظہ کی خبریں
کسی کی کلا ئی کی شاید گھڑی ہوں
ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت گلی میں گڑی ہوں
خلا سے مجھے آ رہی ہیں صدائیں
مگر میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں
میں اک گوشۂ عافیت سے نکل کر
وہ پگلی ہوں، دنیا سے پھر لڑ پڑی ہوں
وہ کرتا ہے نیناں میں بسنے کی باتیں
مگر میں تو اپنی ہی ضد میں پڑی ہوں
فرزانہ نیناں