کیوں ہچکچا رہے ہیں مرے یار، کھینچیے
ہاتھوں میں آپ کے ہیں مرے تار کھینچیے
ہاں دب گیا ہوں میں کئی رسموں کے بوجھ میں
اب سر سے میرے آ کے یہ دستار کھینچیے
میرا کبھی جو آکے وہ پوچھے دیار میں
حلیے کو میرے خاکہ ءِلاچار کھینچیے
اس ماہ پارے پر نہ کوئی داغ ڈالیے
یہ عرض ہے کہ اس کے نہ رخسار کھینچیے
جی جائیے رقیب کے ہمراہ جائیے
جو بچ گئی ہیں سانسیں وہ دو چار کھینچیے
قاصد نے میرے آنے کی جو دی خبر انہیں
کاغذ پہ ان کے چہرے کے آثار کھینچیے
خستہ جی اک غزل سے انہیں موہ لیں گے کیا
آپ ایک یہ تصورِ دشوار کھینچیے
ذیشان احمد خستہ