- Advertisement -

نظر میں طور رکھ اس کم نما کا

میر تقی میر کی ایک غزل

نظر میں طور رکھ اس کم نما کا
بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا

گلوں کے پیرہن ہیں چاک سارے
کھلا تھا کیا کہیں بند اس قبا کا

پرستش اب اسی بت کی ہے ہر سو
رہا ہو گا کوئی بندہ خدا کا

بلا ہیں قادرانداز اس کی آنکھیں
کیا یکہ جنازہ جس کو تاکا

بجا ہے عمر سے اب ایک حسرت
گیا وہ شور سر کا زور پا کا

مداوا خاطروں سے تھا وگرنہ
بدایت مرتبہ تھا انتہا کا

لگا تھا روگ جب سے یہ تبھی سے
اثر معلوم تھا ہم کو دوا کا

مروت چشم رکھنا سادگی ہے
نہیں شیوہ یہ اپنے آشنا کا

کہیں اس زلف سے کیا لگ چلی ہے
پڑے ہے پائوں بے ڈھب کچھ صبا کا

نہ جا تو دور صوفی خانقہ سے
ہمیں تو پاس ہے ابر و ہوا کا

نہ جانوں میر کیوں ایسا ہے چپکا
نمونہ ہے یہ آشوب و بلا کا

کرو دن ہی سے رخصت ورنہ شب کو
نہ سونے دے گا شور اس بے نوا کا

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل