دل میں تیری طلب فزوں ہو جائے
حاوی ایسا ترا فسوں ہو جائے
عشق تحلیل یوں ہو ہستی میں
ایک دن دل یہ خاک و خوں ہو جائے
ہائے افسوس ایسی خواہش پر
بیچ رستے میں جس کا خوں ہو جائے
مصلحت ہے یہی بچھڑ جائیں
شاید اس صبر میں سکوں ہو جائے
ایسا ممکن نہیں کہ تیرے بعد
زندگی پھر سے جوں کی توں ہو جائے
جب توکّل خدا پہ ہو قائم
کیسے ممکن ہے سر نگوں ہو جائے
عشق اتنا تو بخش دے مولا
مجھ کو حاصل ترا جنوں ہو جائے
تم بھی سچے ہو میں بھی سچی ہوں
پھر بھی جو چاہتے ہیں کیوں ہو جائے ؟
جیسے لگتی ہے دلنشین حنا
رنگ ایسا مرے دروں ہوجاۓ
حنا بلوچ