- Advertisement -

ایک سوال (رقیب سے)

گلناز کوثر کی ایک اردو نظم

کبھی تم سسکتی صداؤں کو سُن کر

بہت زرد، مدھم سی اُمید پر

درد کی گہری دلدل میں اترے؟

تپکتے ہوئے گرد رستوں

کٹھن، سرد لمحوں سے گزرے؟

دہکتی ہوئی رات کی کروٹوں میں

کسی خواب کی دھیمی دھن پر

سلگنے کی حسرت رہی ہو

کبھی ایک چبھتی ہوئی یاد دِل کو

حزیں کر گئی ہو

کسی سرپھرے جذب نے

اندھی راتوں میں پاگل کیا ہو؟

فقط ایک پل کے لیے

جیسے روتے ہوئے دل کو

دھڑکا لگا ہو

کبھی کالی راتوں کو

مدھم سُروں سے اُجالا

کبھی ٹوٹے بالوں، بچے سگرٹوں کو

چُنا اور سنبھالا

کبھی اُن نگاہوں کو تتلی لکھا ہو؟

کبھی اُن لبوں پر فسانہ کہا ہو؟

کڑی جان لیوا جدائی کا

بس ایک موسم سہا ہو

کبھی تم نے تھاما

بہت سہمے ہاتھوں کو

جیون کی

مشکل گھڑی میں

کسی ان کہی کو سنا ہو

گزرتے ہوئے وقت کی راکھ سے

کوئی موتی چُنا ہو

کبھی عمر بھر ایک رشتہ بُنا ہو

مگر پھر بھی اُتری ہیں

کیسی حسیں، دلربا ساعتیں

تُم پہ ساتوں جہاں مہرباں ہیں

اِدھر زخمی قدموں میں اب بھی

وہی درد کی بیڑیاں ہیں

وہی خشک صحرا،

وہی پیاسے، بھٹکے، بلکتے ہوئے

دل کی زخمی صدا ہے

میں حیران ہوں گر یہی ماجرا ہے

تو پھر مجھ سے میرا خدا ہی خفا ہے

گلناز کوثر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
گلناز کوثر کی ایک اردو نظم