عاشق تھے مگرصاحبِ دستار رہے ہیں
ہم اپنے قبیلے کے بھی سردار رہے ہیں
قیمت نہ بتاؤہمیں خوشبو کی کہ ہم لوگ
ہر قسم کے پھولوں کے خریدار رہے ہیں
مدت ہوئی اک خواب بھی دیکھا نہیں ہم نے
عرصہ ہواہم سو کے بھی بیدار رہے ہیں
ہم اپنی کہانی کے ہی کردار نہیں تھے
ہم تیری کہانی کے بھی کردار رہے ہیں
تجھ سے کبھی مانگا نہ محبت کا صلہ تک
بس تیری محبت کے گنہ گار رہے ہیں
ہم سامنے آ کر بھی نہ آئے سرِ منظر
دیوار کے آگے پسِ دیوار رہے ہیں
دنیا کا کوئی راز نہ پا کر بھی ہمیشہ
دنیا کی نگا ہوں میں پر اسرار رہے ہیں
ہم لوگ ضمانت پہ رہا ہو نہیں سکتے
ہم لوگ جو آنکھوں کے گرفتار رہے ہیں
دنیا کی نظر میں تو رہے کام کے فیصلؔ
بس تیری نظر میں ہی تو بیکار رہے ہیں
فیصل شہزاد