زباں بندی کروں میں کس لئے تذلیل کے ڈر سے
میں گھر میں قید ہو جاؤں تری تحویل کے ڈر سے
اجالے کی حکومت تو سدا بے خوف رہتی ہے
اندھیرا منہ چھپاتا ہے کسی قندیل کے ڈر سے
تمھارے دل کے چوری نے تمھیں خاموش رکھا ہے
سبھی چُپ چاپ بیٹھے ہیں کسی تفصیل کے ڈر سے
ادھورے پن کو اپنی ذات سے باہر نکالا ہے
مرا دشمن ہراساں ہے میری تکمیل کے ڈر سے
بلندی پر پہنچ کر ہی وہ کھو دے گا وجود اپنا
دھواں آنسو بہاتا جا رہا تحلیل کے ڈر سے
جسے سینے لگاتا ہوں وہ اندر جھانکنا چاہے
گلے ملتا نہیں اب راز کی ترسیل کے ڈر سے
زمیں زادی کی آنکھوں میں یہ کتنا خوف ہے صابرؔ
کبھی قابیل کے ڈر سے کبھی ہابیل کے ڈر سے
ایوب صابر