بے گناہ ٹھہرا مگر تحویل میں رکھا گیا
مجھ کو برسوں درد کی زنبیل میں رکھا گیا
جب مرے کردار سے تم مطمعن ہوتے نہیں
کس لیے ہے پھر مجھے تمثیل میں رکھا گیا
چاک پر رکھ کر مجھے پرکھا گیا ہے دوستو
اک زمانے تک مجھے تکمیل میں رکھا گیا
ایک سینے سے نکل کر دوسرے میں گھر کرے
راز کیسا لفظ کی ترسیل میں رکھا گیا
علم کی خاطر مشقت جھیلنا اعزاز ہے
آشنائی کا ہنر تحصیل میں رکھا گیا
سَرکشی کی دوڑ سے باہر نکل کے دیکھنا
کس قدر انعام ہے تعمیل میں رکھا گیا
رات بھر جلتی ہے صابرؔ روشنی کی چاہ میں
کون ساجذبہ ہے اِس قندیل میں رکھا گیا
ایوب صابر