تم اشکوں کا زخمہ بناؤ تو جانیں
حزیں دھن پہ سب کو ہنساؤ تو جانیں
دبستانِ نفرت سکھاتا ہے نفرت
زبانِ محبت سکھاؤ تو جانیں
اجالے میں سورج کے ذہنی اندھیرا
ہدایت کی راہیں سُجھاؤ تو جانیں
عجب تیرگی ہے عجب روشنی ہے
سحر ہے کہ شب ہے بتاؤ تو جانیں
چراغِ تمنا جلایا سبھوں نے
تمنا کو اپنی جلاؤ تو جانیں
وہ مچھر جو راتوں کی نیندیں اڑادے
اسے قصۂ غم سناؤ __ تو جانیں
غزل میں تکلم ہے لوگوں میں چپ ہو
خموشی کو شعروں میں لاؤ جانیں
ہر طرف روشنی کا جالا ہے
پھر بھی اپنا ضمیر کالا ہے
آئینہ دیکھنے کی عادت تھی
آئینہ آج __ توڑ ڈالا ہے
رات تاریک اچھی لگتی ہے
آج کیوں رات میں اجالا ہے
زخم کے احترام کی خاطر
دل نے سر سینے سے نکالا ہے
آدمی الجھا ہے فقط اس میں
باپ گورا ہے بیٹا کالا ہے
دیکھا جاتا نہیں ہے زرد گلاب
اس میں خوں اپنا سرخ ڈالا ہے
تو گہی نغمہ ہاۓ من بشنو
ساز میں درد ہے نرالا ہے
شاعری کے رموز کھول وقیع
لفظ چابی ہے معنی تالا ہے
جو چاہا نہ پایا جو پایا وہ کھویا
یوں قسمت کے دریا میں دل کو ڈبویا
جلے پر کسی کے کہاں تک اڑاتے
پرندہ تھکا پھڑپھڑا کے تو سویا
جو سوچا تھا ہم نے الٹ کیوں ہوا ہے
وہ کیوں کاٹا ہم نے جو ہم نے نا بویا
ہوا میں پرندوں کو اڑتے جو دیکھا
قفس دیکھا خالی تو آٹھ آنسو رویا
چراغوں سے پروانے جلتے تھے اب تو
یہ باتیں زبانی کلامی ہیں گویا
پگھلتی ہوئی موم سے انگلیوں کی
قبا سی بنائی اور آتش سے دھویا
ٹوٹے ہوئے تارے کی _ چمک دیکھ رہا ہوں
پاگل ہوں جو میں اپنی کسک دیکھ رہا ہوں
ناسور ہوۓ _ زخم تو مرہم پہ تذبذب
مرہم کے کٹورے میں نمک دیکھ رہا ہوں
اندر جو اندھیرا ہے مری ___روح پہ طاری
ساۓ سے عیاں اس کی جھلک دیکھ رہا ہوں
لہروں کی اڑانیں جو بہت __ تیز ہوئی ہیں
پانی پہ بنا عکسِ فلک _ دیکھ رہا ہوں
اک نخل جو سایہ کیے صحرا میں کھڑا _ ہے
احساس بھری اسکی کُمک _ دیکھ رہا ہوں
مزدور نے جب گرمی میں ہاتھوں کو اٹھایا
پھر ۔ شدتِ گرمی میں لچک دیکھ رہا ہوں
مرے بندے مجھ سے تو باتیں کیا کر
ارادوں میں سوچو میں مجھ کو رکھا کر
ترے پاس ہوں میں تری نزدِ جاں ہوں
ذرا غور سے تُو یہ دھڑکن سنا کر
خموشی سے راتوں کو خلوت میں چھپ کے
جو چاہے اے بندے تو مجھ سے کہا کر
ہوئی ہے خطا تو مرے در پہ آجا
معافی طلب کر میں کہہ دوں بچا کر
تری ہر مصیبت کو میں جانتا ہوں
بھروسے کی جھولی سے مجھ سے دعا کر
تجھے چاہیے کیا مرے پیارے _ بندے
تو سجدوں میں کہہ دے اے مالک عطا کر
مرے پیارے بندے مری پیاری خلقت
تو قرآں سے میرے فسانے سنا ۔۔کر
میں تجھ سے فقط اتنا ہی چاہتا ہوں
تو مجھ سے محمد سے سچی وفا کر
سید محمد وقیع