دنیا ترے خیال سے آباد کر چلے
ٹھہرے جہاں جہاں بھی، تجھے یاد کر چلے
یہ بات دیکھتے ہیں چمن میں خزاں نصیب
اہل چمن بہار کو برباد کر چلے
غربت میں اجنبی کی طرح پیش آئے سب
ویسے تو ہم زمانے سے فریاد کر چلے
جن کی خوشی کے واسطے لاکھوں جتن کیے
ہاتھوں سے اپنے وہ ہمیں برباد کر چلے
اپنی بلا سے اب وہ رقیبوں سے جا ملے
دل کو ہر آرزو سے ہم آزاد کر چلے
جنکی جہاں میں مل نہ سکے گی کوئی مثال
ایسے ستم وہ سیکڑوں ایجاد کر چلے
افسانے بے رخی کے کریں گے وہ نامزد
جن سے بیاں ہم اپنی یہ روداد کر چلے
چشمہ وہ اور ہیں جنہیں خوشیاں نصیب ہیں
ہم تو غم حیات سےشاد کر چلے
چشمہ فاروقی