- Advertisement -

دیوانہ شاعر

اردو افسانہ از سعادت حسن منٹو

دیوانہ شاعر

اگر مقدّس حق دنیا کی متجسّس نگاہوں سے اوجھل کر دیا جائے۔ تو رحمت ہو اس دیوانے پر جو انسانی دماغ پر سنہرا خواب طاری کر دے۔ میں آہوں کا بیوپاری ہُوں، لہو کی شاعری میرا کام ہے، چمن کی ماندہ ہواؤ! اپنے دامن سمیٹ لو___ کہ میرے آتشیں گیت، دبے ہُوئے سینوں میں ایک تلاطم برپا کرنے والے ہیں، یہ بے باک نغمہ درد کی طرح اُٹھا، اور باغ کی فضا میں چند لمحے تھر تھرا کر ڈُوب گیا۔
آواز میں ایک قسم کی دیوانگی تھی___ ناقابل بیان، میرے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی۔ میں نے آواز کی جستجو میں اِدھر اُدھر نگاہیں اٹھائیں۔ سامنے چبوترے کے قریب گھاس کے تختے پر چند بچے اپنی ماماؤں کے ساتھ کھیل کُود میں محو تھے، پاس ہی دو تین گنوار بیٹھے ہُوئے تھے۔ بائیں طرف نیم کے درختوں کے نیچے مالی زمین کھودنے میں مصروف تھا۔ میں ابھی اسی جستجو میں ہی تھا کہ وہی درد میں ڈوبی ہوئی آواز پھر بُلند ہُوئی۔ میں اُن لاشوں کا گیت گاتا ہوں، جن کی سردی دسمبر مستعار لیتا ہے۔ میرے سینے سے نکلی آہ وہ لُوہے جو جون کے مہینے میں چلتی ہے۔ میں آہوں کا بیوپاری ہُوں۔ لہو کی شاعری میرا کام ہے……. آواز کنوئیں کے عقب سے آ رہی تھی۔ مجھ پر ایک رقت سی طاری ہو گئی۔ میں ایسا محسوس کرنے لگا۔ کہ سرد اور گرم لہریں بیک وقت میرے جسم سے لپٹ رہی ہیں۔
اس خیال نے مجھے کسی قدر خوف زدہ کر دیا کہ آواز اس کنوئیں کے قریب سے بلند ہو رہی ہے۔ جس میں آج سے کچھ سال پہلے لاشوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی میرے دماغ میں جلیانوالہ باغ کے خُونی حادثے کی ایک تصویر کھچ گئی۔ تھوڑی دیر کے لیے مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ باغ میں فضا گولیوں کی سنسناہٹ اور بھاگتے ہُوئے لوگوں کی چیخ پکار سے گونج رہی ہے۔ میں لرز گیا۔ اپنے کاندھوں کو زور سے جھٹکا دے کر اور اس عمل سے اپنے خوف کو دُور کرتے ہُوئے میں اُٹھا۔ اور کنوئیں کا رخ کیا۔ سارے باغ پر ایک پُر اسرار خاموشی چھائی ہُوئی تھی۔ میرے قدموں کے نیچے خشک پتوں کی سرسراہٹ سُوکھی ہُوئی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ کوشش کے باوجود میں اپنے دل سے وہ نامعلوم خوف دُور نہ کر سکا۔ جو اس آواز نے پیدا کر دیا تھا۔ ہر قدم پر مجھے یہی معلوم ہوتا تھا کہ گھاس کے سر سبز بستر پر بے شمار لاشیں پڑی ہوئی ہیں جن کی بوسیدہ ہڈیاں میرے پاؤں کے نیچے ٹوٹ رہی ہیں۔ یکایک میں نے اپنے قدم تیز کیے اور دھڑکتے ہوئے دل سے اس چبوترے پر بیٹھ گیا۔ جو کنوئیں کے ارد گرد بنا ہوا تھا۔ میرے دماغ میں بار بار یہ عجیب سا شعر گونج رہا تھا۔ میں آہوں کا بیوپاری ہوں۔ لہو کی شاعری میرا کام ہے۔ کنوئیں کے قریب کوئی متنفّس موجود نہ تھا۔ میرے سامنے چھوٹے پھاٹک کی ساتھ والی دیوار پر گولیوں کے نشان تھے۔ چوکور جالی مندھی ہوئی تھی۔ میں ان نشانوں کو بیسیوں مرتبہ دیکھ چکا تھا۔ مگر اب وہ نشان جو میری نگاہوں کے عین بالمقابل تھے۔ دو خونین آنکھیں معلوم ہو رہے تھے۔ جو دُور ___ بہت دُور کسی غیر مرئی چیز کو ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی ہوں۔
بلا ارادہ میری نگاہیں ان دو چشم نما سوراخوں پر جم کر رہ گئیں۔ میں ان کی طرف مختلف خیالات میں کھویا ہوا خدا معلوم کتنے عرصے تک دیکھتا رہا۔ کہ دفعتہ پاس والی روش پر کسی کے بھاری قدموں کی چاپ نے مجھے اس خواب سے بیدار کر دیا۔ میں نے مُڑ کر دیکھا گلاب کی جھاڑیوں سے ایک دراز قد آدمی سر جھکائے میری طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ اس کے بڑے کوٹ کی جیبوں میں ٹھنسے ہوئے تھے۔ چلتے ہوئے وہ زیر لب کچھ گُنگُنا رہا تھا۔ کنویں کے قریب پہنچ کر وہ یکایک ٹھٹکا۔ اور گردن اُٹھا کر میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’پانی پیوں گا‘‘ میں فوراً چبوترے پر سے اُٹھا اور پمپ کا ہینڈل ہلاتے ہوئے اس اجنبی سے کہا ’’آئیے‘‘ اچھی طرح پانی پی چکنے کے بعد اس نے اپنے کوٹ کی میلی آستین سے منہ پونچھا۔ اور واپس چلنے کو ہی تھا۔ کہ میں نے دھڑکتے ہُوئے دل سے دریافت کیا۔ ’’کیا ابھی ابھی آپ ہی گا رہے تھے؟‘‘ ’’ہاں___ مگر آپ کیوں دریافت کر رہے ہیں؟‘‘ یہ کہتے ہُوئے اس نے اپنا سر پھر اُٹھایا۔ اس کی آنکھیں جن میں سرخ ڈورے غیر معمولی طور پر نمایاں تھے۔ میری قلبی واردات کا جائزہ لیتی ہُوئی معلوم ہو رہی تھیں۔ میں گھبرا گیا۔ ’’آپ ایسے گیت نہ گایا کریں___ یہ سخت خوفناک ہیں‘‘ ’’خوفناک!___ نہیں، انہیں ہیبت ناک ہونا چاہیے۔ جب کہ میرے راگ کے ہر سُر میں رستے ہُوئے زخموں کی جلن اور رُکی ہوئی آہوں کی تپش معمور ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ میرے شعلوں کی زبانیں آپ کی برفائی ہوئی روح کو اچھی طرح چاٹ نہیں سکیں‘‘ اس نے اپنی نوکیلی ٹھوڑی کو انگلیوں سے کھجلاتے ہوئے کہا۔ یہ الفاظ اس شور کے مشابہ تھے۔ جو برف کے ڈھیلے میں تپتی ہوئی سلاخ گزارنے سے پیدا ہوتا ہے۔ ’’آپ مجھے ڈرا رہے ہیں‘‘ ’’میرے یہ کہنے پر اس مردِ عجیب کے حلق سے ایک قہقہہ نما شور بُلند ہوا۔ ہا، ہا، ہا،……… آپ ڈر رہے ہیں۔ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ اس وقت اس منڈیر پر کھڑے ہیں۔ جو آج سے کچھ عرصہ پہلے بے گناہ انسانوں کے خون سے لتھڑی ہوئی تھی۔ یہ حقیقت میری گفتگو سے زیادہ وحشت خیز ہے‘‘ یہ سن کر میرے قدم ڈگمگا گئے، میں واقعی خونین منڈیر پر کھڑا تھا۔ مجھے خوفزدہ دیکھ کر وہ پھر بولا۔ ’’تھرّائی ہوئی رگوں سے بہا ہوا لہو کبھی فنا نہیں ہوتا___ اس خاک کے ذرّے ذرّے میں مجھے سرخ بوندیں تڑپتی نظر آ رہی ہیں۔ آؤ، تم بھی دیکھو!‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی نظریں زمین میں گاڑ دیں۔ میں کنویں پر سے نیچے اتر آیا۔ اور اس کے پاس کھڑا ہو گیا۔میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ دفعتاً اس نے اپنا ہاتھ میرے کاندھے پر رکھا۔ اور بڑے دھیمے لہجے میں کہا۔ ’’مگر تم اسے نہیں سمجھ سکو گے- یہ بہت مشکل ہے! میں اس کا مطلب بخوبی سمجھ رہا تھا۔ وہ غالباً مجھے اس خونی حادثے کی یاد دلا رہا تھا۔ جو آج سے سولہ سال قبل اس باغ میں واقع ہوا تھا۔
اس حادثے کے وقت میری عمر قریباً پانچ سال کی تھی۔ اس لیے میرے دماغ میں اس کے بہت دُھندلے نقوش باقی تھے۔ لیکن مجھے اتنا ضرور معلوم تھا کہ اس باغ میں عوام کے ایک جلسے پر گولیاں برسائی گئی تھیں۔ جس کا نتیجہ قریباً دو ہزار اموات تھیں۔ میرے دل میں ان لوگوں کا بہت احترام تھا جنھوں نے اپنی مادرِ وطن اور جذبۂ آزادی کی خاطر اپنی جانیں قربان کر دی تھیں بس اس احترام کے علاوہ میرے دل میں حادثے کے متعلق اور کوئی خاص جذبہ نہ تھا۔ مگر آج اس مرد کی عجیب گفتگو نے میرے سینے میں ایک ہیجان سا برپا کر دیا۔ میں ایسا محسوس کرنے لگا کہ گولیاں تڑاتڑ برس رہی ہیں اور بہت سے لوگ وحشت کے مارے ادھر اُدھر بھاگتے ہوئے ایک دوسرے پر گر کر مر رہے ہیں۔ اس اثر کے تحت میں چلاّ اُٹھا۔ ’’میں سمجھتا ہُوں ___ میں سب کچھ سمجھتا ہوں۔ موت بھیانک ہے۔ مگر ظلم اس سے کہیں خوفناک اوربھیانک ہے!!‘‘ یہ کہتے ہوئے مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے سب کچھ کہہ ڈالا ہے۔ اور میرا سینہ بالکل خالی رہ گیا ہے۔ مجھ پر ایک مردنی سی چھا گئی۔ غیر ارادی طور پر میں نے اس شخص کے کوٹ کو پکڑ لیا اور تھرّائی ہُوئی آواز میں کہا۔ ’’آپ کون ہیں؟___ آپ کون ہیں؟‘‘ ’’آہوں کا بیوپاری___ ایک دیوانہ شاعر‘‘ ’’آہوں کا بیوپاری!___ دیوانہ شاعر‘‘ اس کے الفاظ زیرِ لب گُنگُناتے ہُوئے میں کنوئیں کے چبوترے پر بیٹھ گیا۔ اس وقت میرے دماغ میں اس دیوانے شاعر کا گیت گونج رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے اپنا جُھکا ہوا سر اٹھایا۔ سامنے سپیدے کے دو درخت ہیبت ناک دیوؤں کی طرح انگڑائیاں لے رہے تھے۔ پاس ہی چنبیلی اور گلاب کی خاردار جھاڑیوں میں ہوا آہیں بکھیر رہی تھی۔ دیوانہ شاعر خاموش کھڑا سامنے والی دیوار کی ایک کھڑکی پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا شام کے خاکستری دھندلکے میں وہ ایک سایہ سا معلوم ہو رہا تھا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اپنے خشک بالوں کو انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے گنگنایا۔
’’آہ! یہ سب کچھ خوفناک حقیقت ہے___ کسی صحرا میں جنگلی انسان کے پیروں کے نشانات کی طرح خوفناک!‘‘ ’’کیا کہا؟‘‘ میں ان الفاظ کو اچھی طرح سُن نہ سکا تھا۔ جو اس نے منہ ہی منہ میں ادا کیے تھے۔ ’’کچھ بھی نہیں‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ میرے پاس آکر چبوترے پر بیٹھ گیا۔ ’’مگر آپ گنگنا رہے تھے‘‘ اس پر اس نے اپنی آنکھیں ایک عجیب انداز میں سکیڑیں۔ اور ہاتھوں کو آپس میں زور زور سے ملتے ہوئے کہا ’’سینے میں قید کیے ہوئے الفاظ باہر نکلنے کے لیے مضطرب ہوتے ہیں۔ اپنے آپ سے بولنا اس الوہیت سے گفتگو کرنا ہے۔ جو ہمارے دل کی پہنائیوں میں مستور ہوتی ہے۔‘‘ پھر ساتھ ہی گفتگو کا رُخ بدلتے ہوئے ’’کیا آپ نے اس کھڑکی کو دیکھا ہے؟‘‘ اس نے اپنی انگلی اس کھڑکی کی طرف اٹھائی۔ جسے وہ چند لمحہ پہلے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ میں نے اُس جانب دیکھا۔ چھوٹی سی کھڑکی تھی۔ جو سامنے دیوار کی خستہ اینٹوں میں سوئی معلوم ہوتی تھی۔ ’’یہ کھڑکی جس کا ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے؟‘‘ میں نے اس سے کہا ’’ہاں___ یہی، جس کا ایک ڈنڈا نیچے لٹک رہا ہے کیا تم اس پر اس معصوم لڑکی کے خون کے چھینٹے نہیں دیکھ رہے ہو۔ جس کو صرف اس لیے ہلاک کیا گیا تھا کہ ترکشِ استبداد کو اپنے تیروں کی قوّتِ پرواز کا امتحان لینا تھا___ میرے عزیز! تمہاری اس بہن کا خون ضرور رنگ لائے گا میرے گیتوں کے زیرو بم میں اس کم سن رُوح کی پھڑ پھڑاہٹ اور اس کی دلدوز چیخیں ہیں۔ یہ سکون کے دامن کو تار تار کریں گے۔ ایک ہنگامہ ہو گا۔ سینۂ گیتی شق ہو جائے گا۔ میری بے لگام آواز بُلند سے بُلند تر ہوتی جائے گی___ پھر کیا ہو گا؟___ پھر کیا ہو گا؟___ یہ مجھے معلوم نہیں___ آؤ، دیکھو، اس سینے میں کتنی آگ سُلگ رہی ہے!‘‘ یہ کہتے ہُوئے اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اور اسے کوٹ کے اندر لے جا کر اپنے سینے پر رکھ دیا۔ اس کے ہاتھوں کی طرح اس کا سینہ بھی غیر معمولی طور پر گرم تھا۔ اس وقت اس کی آنکھوں کے ڈورے بہت اُبھرے ہوئے تھے۔ میں نے اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔ اور کانپتی ہوئی آواز میں کہا ’’آپ علیل ہیں۔ کیا میں آپ کو گھر چھوڑ آؤں؟‘‘ ’’نہیں میرے عزیز، میں علیل نہیں ہوں۔‘‘ اس نے زور سے اپنے سر کو ہلایا۔ ’’یہ انتقام ہے جو میرے اندر گرم سانس لے رہا ہے میں اس دبی ہوئی آگ کو اپنے گیتوں کے دامن سے ہوا دے رہا ہوں۔ کہ یہ شعلوں میں تبدیل ہو جائے۔‘‘ ’’یہ درست ہے مگر آپ کی طبیعت واقعتہً خراب ہے۔ آپ کے ہاتھ بہت گرم ہیں۔
اس سردی میں آپ کو زیادہ بخار ہو جانے کا اندیشہ ہے۔‘‘ ’’اس کے ہاتھوں کی غیر معمولی گرمی اور آنکھوں میں اُبھرے ہوئے سُرخ ڈورے صاف طور پر ظاہر کر رہے تھے کہ اسے کافی بخار ہے۔‘‘ اس نے میرے کہنے کی کوئی پروا نہ کی۔ اور جیبوں میں ہاتھ ٹھونس کر میری طرف بڑے غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ لکڑی جلے اور دُھواں نہ دے___ میرے عزیز! ان آنکھوں نے ایسا سماں دیکھا ہے۔ کہ انہیں اُبل کر باہر آنا چاہیے تھا۔ کیا کہہ رہے تھے کہ میں علیل ہُوں___ ہا، ہا، ہا،___ علالت___ کاش کہ سب لوگ میری طرح علیل ہوتے___ جائیے، آپ ایسے نازک مزاج میری آہوں کے خریدار نہیں ہو سکتے۔‘‘ ’’مگر……….. ‘‘ ’’مگر وگر کچھ نہیں۔‘‘ وہ دفعتہ جوش میں چلاّنے لگا۔ ’’انسانیت کے بازار میں صرف تم لوگ باقی رہ گئے ہو، جو کھوکھلے قہقہوں اور پھیکے تبسّموں کے خریدار ہو۔ ایک زمانے سے تمہارے مظلوم بھائیوں اور بہنوں کی فلک شگاف چیخیں تمہارے کانوں سے ٹکرا رہی ہیں۔ مگر تمہاری خوابیدہ سماعت میں ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ آؤ: اپنی روحوں کو میری آہوں کی آنچ دو۔ یہ انہیں حساس بنا دے گی۔‘‘ میں اس کی گفتگو کو غور سے سُن رہا تھا۔ میں حیران تھا، کہ وہ چاہتا کیا ہے۔ اور اس کے خیالات اس قدر پریشان ومضطرب کیوں ہیں۔بیشتر اوقات ایک عجیب قسم کی دیوانگی تھی۔ اس کی عمر یہی کوئی پچیس برس کے قریب ہو گی داڑھی کے بال جو ایک عرصہ سے مونڈے نہ گئے تھے۔ کچھ اس انداز میں اس کے چہرے پر اُگے ہوئے تھے۔ کہ معلوم ہوتا تھا، کسی خشک روٹی پر بہت سی چیونٹیاں چمٹی ہوئی ہیں گال اندر کو پچکے ہوئے، ماتھا باہر کی طرف اُبھرا ہوا۔ ناک نوکیلی۔ آنکھیں بڑی جن سے وحشت ٹپکتی تھی۔ سر پر خشک اور خاک آلودہ بالوں کا ایک ہجوم۔ بڑے سے بُھورے کوٹ میں وہ واقعی شاعر معلوم ہو رہا تھا___ ایک دیوانہ شاعر، جیسا کہ اس نے خود اس نام سے اپنے آپ کو متعارف کرایا تھا۔ میں نے اکثر اوقات اخباروں میں ایک جماعت کا حال پڑھا تھا۔ اس جماعت کے خیالات دیوانے شاعر کے خیالات سے بہت حد تک ملتے جلتے تھے۔ میں نے خیال کیا کہ شاید وہ بھی اسی جماعت کا رُکن ہے۔ ’’آپ انقلابی معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ اس پر وہ کِھل کھلا کر ہنس پڑا۔ ’’آپ نے یہ بہت بڑا انکشاف کیا ہے۔___ میاں، میں تو کوٹھوں کی چھتوں پر چڑھ چڑھ کر پکارتا ہوں۔ میں انقلابی ہوں۔ میں انقلابی ہوں___ مجھے روک لے جس سے بن پڑتا ہے___ آپ نے واقعی بہت بڑا انکشاف کیا ہے۔‘‘ یہ کہ کر ہنستے ہوئے وہ اچانک سنجیدہ ہو گیا۔ ’’سکول کے ایک طالب علم کی طرح انقلاب کے حقیقی معانی سے تم بھی نا آشنا ہو، انقلابی وہ ہے جو ہر ناانصافی اور ہر غلطی پر چلاّ اُٹھے۔ انقلابی وہ ہے جو سب زمینوں، سب آسمانوں، سب زبانوں اور سب وقتوں کا ایک مجسم گیت ہو، انقلابی، سماج کے قصاب خانے کی ایک بیمار اور فاقوں مری بھیڑ نہیں وہ ایک مزدور ہے تنو مند، جو اپنے آہنی ہتھوڑے کی ایک ضرب سے ہی ارضی جنّت کے دروازے وا کر سکتا ہے۔
میرے عزیز! یہ منطق، خوابوں اور نظریوں کا زمانہ نہیں، انقلاب ایک ٹھوس حقیقت ہے، یہ یہاں پر موجود ہے۔ اس کی لہریں بڑھ رہی ہیں۔ کون ہے جو اب اس کو روک سکتا ہے۔ یہ بند باندھنے پر نہ رُک سکیں گی!‘‘ اس کا ہر لفظ ہتھوڑے کی اس ضرب کی مانند تھا جوسُرخ لوہے پر پڑ کر اس کی شکل تبدیل کر رہا ہو۔ میں نے محسوس کیا کہ میری روح کسی غیر مرئی چیز کو سجدہ کر رہی ہے۔ شام کی تاریکی بتدریج بڑھ رہی تھی، نیم کے درخت کپکپا رہے تھے شاید میرے سینے میں ایک نیا جہاں آباد ہو رہا تھا۔ اچانک میرے دل سے کچھ الفاظ اٹھے اور لبوں سے باہر نکل گئے۔ ’’اگر انقلاب یہی ہے، تو میں بھی انقلابی ہوں!‘‘ شاعر نے اپنا سر اُٹھایا اور میرے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا ’’تو پھر اپنے خون کو کسی طشتری میں نکال کر رکھ چھوڑو، کہ ہمیں آزادی کے کھیت کے لیے اس سُرخ کھاد کی بہت ضرورت محسوس ہو گی___ آہ! وہ وقت کس قدر خوشگوار ہو گا جب میری آہوں کی زردی تبسّم کا رنگ اختیار کرلے گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کنوئیں کی منڈیر سے اُٹھا اور میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے کر کہنے لگا۔ ’’اس دُنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جو حال سے مطمئن ہیں۔ اگر تمہیں اپنی روح کی بالیدگی منظور ہے تو ایسے لوگوں سے ہمیشہ دُور رہنے کی سعی کرنا۔ ان کا احساس پتھرا گیا ہے۔ مستقبل کے جاں بخش مناظر ان کی نگاہوں سے ہمیشہ اوجھل رہیں گے۔………….. اچھا، اب میں چلتا ہوں۔‘‘ اس نے بڑے پیار سے میرا ہاتھ دبایا، اور پیشتر اس کے کہ میں اس سے کوئی اور بات کرتا وہ لمبے قدم اُٹھاتا ہوا جھاڑیوں کے جھنڈ میں غائب ہو گیا۔ باغ کی فضا پر خاموشی طاری تھی۔ میں سر جھکائے ہوئے خدا معلوم کتنا عرصہ اپنے خیالات میں غرق رہا۔ کہ اچانک اس شاعر کی آواز رات کی رانی کی دلنواز خوشبو میں گُھلی ہوئی میرے کانوں تک پہنچی۔ وہ باغ کے دوسرے گوشے میں گا رہا تھا۔ زمین ستاروں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہی ہے۔ اُٹھو اور ان نگینوں کو اس کے ننگے سینے پر جڑ دو۔ ڈھاؤ، کھودو، چپرؤ، ماروا۔ میں آہوں کا بیوپاری ہوں۔ نئی دنیا کے معمارو! کیا تمہارے بازؤں میں قوت نہیں ہے۔ لہو کی شاعری میرا کام ہے گیت ختم ہونے پر میں باغ میں کتنے عرصے تک بیٹھا رہا۔ یہ مجھے قطعاً یاد نہیں۔ والد کا بیان ہے۔ کہ میں اس روز گھر بہت دیر سے آیا تھا۔

سعادت حسن منٹو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ڈاکٹر صباحت عاصم واسطی کی ایک اردو غزل