آپ کا سلاماردو غزلیاترشید حسرتشعر و شاعری

اک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا

ایک اردو غزل از رشید حسرت

اک ادا سے آئے گا، بہلائے گا، لے جائے گا
پاؤں میں زنجِیر سی پہنائے گا، لے جائے گا

میں نے اُس کے نام کر ڈالی متاعِ زِندگی
اب یہاں سے اُٹھ کے وُہ جب جائے گا لے جائے گا

کل نئی گاڑی خرِیدی ہے مِرے اِک دوست نے
سب سے پہلے تو مُجھے دِکھلائے گا لے جائے گا

میں بڑا مُجرم ہُوں مُجھ کو ضابطوں کا ہے خیال
ہتھکڑی اِک سنتری پہنائے گا، لے جائے گا

میری چِیزوں میں سے اُس کو جو پسند آیا کبھی
چِھین لے گا چِیز پِھر مُسکائے گا، لے جائے گا

شاعری رکھ دی ہے میں نے کم نظر لوگوں کے بِیچ
دوستو وہ مِہرباں بھی آئے گا، لے جائے گا

اپنی بِیوی کے بِنا کِس کا گُزارا ہے یہاں
دیکھنا، داماد جی پچھتائے گا، لے جائے گا

سر میں چاندی تار لے کر ایک لڑکی نے کہا
کیا کوئی اب بھی مُجھے اپنائے گا، لے جائے گا؟؟

دیکھنا کُوڑے میں سڑتا باسی کھانا بھی رشِیدؔ
ننھا سا مجبُور بچّہ کھائے گا، لے جائے گا

رشِید حسرتؔ

رشید حسرت

رشید حسرت نے 1981 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا۔ ان کی شاعری اخبارات، ادبی رسائل اور کل پاکستان و کل پاک و ہند مشاعروں میں شائع اور پیش ہوتی رہی۔ پی ٹی وی کوئٹہ کے مشاعروں میں ان کی شرکت ان کی تخلیقی شناخت کا آغاز تھی، مگر بعد میں انہوں نے اجارہ داریوں اور غیر منصفانہ رویّوں سے تنگ آ کر اس نظام سے علیحدگی اختیار کی۔ ان کے پانچ شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ سب کے سب اپنی ذاتی جیب سے، جو ان کے خلوص اور ادب سے والہانہ لگاؤ کی علامت ہیں۔ رشید حسرت اس طبقے کے نمائندہ شاعر ہیں جنہوں نے ادب کو کاروبار نہیں بلکہ عبادت سمجھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button