آتشِ ہجر جلانے پہ تُلی ہے مجھ کو
اور ہوا ہے کہ بجھانے پہ تُلی ہے مجھ کو
مجھ کو دیوار بتاتی ہے وہ کیا سنتی ہے
اور وہ ہر بات بتانے پہ تُلی ہے مجھ کو
پیڑ نے راز بتایا ہے کہ سب مٹّی ہے
راز مٹّی بھی بتانے پہ تُلی ہے مجھ کو
مجھ میں حیران، بھٹکتی یہ مری بے چینی
نت نئی شکل میں لانے پہ تُلی ہے مجھ کو
آب اور خاک کی سازش میں پنپتی خواہش
کون سا کھیل دِکھانے پہ تُلی ہے مجھ کو
زندگی کھینچ کے لائی تھی اس خرابے میں
اور اب چھوڑ کے جانے پہ تُلی ہے مجھ کو
دل کوئی باغ اُگانے پہ تُلا ہے کامیؔ
دشت میں خاک اُڑانے پہ تُلی ہے مجھ کو
سید کامی شاہ