یہ جو دمکتا نظر آ رہا ہوں باہر سے
جلا رہی ہے کوئی آگ مجھ کو اندر سے
عجب نہیں تھا کہ سینے میں دل یہ بجھ جاتا
ضیاء ملی ہے مجھے اُس مہِ منور سے
مَیں کوئی اور تھا تیرے ہی خواب میں جو رہا
یہ کوئی اور ہے اُٹھا جو میرے بستر سے
میں اک دِیا تھا ، سو جلنا تھا خاص مدت تک
ہوا تھی اور وہ لپٹی تھی میرے پیکر سے
عجیب ہی تھا وہ پتھر جو اُس نے پھینکا تھا
نکل رہی تھی کوئی روشنی سی پتھر سے
اب اُس نے آنکھ میں رہنا ہے اور بہنا نہیں
طویل بات ہوئی ہے مری سمندر سے
سمیٹتے ہوئے پر اپنے ، ہاتھ جلتے ہوئے
نکل گیا مرا سایہ تمہارے منظر سے
یہ کس زمین کی بستی ہے، کیا وبا ہے یہاں
کہ اُٹھ رہے ہیں جنازے یہاں ہر اک گھر سے
سید کامی شاہ