چاند
بے چین خیالوں کو جگاتی ہے چاندنی
یادیں تمہاری ساتھ میں لاتی ہے چاندنی
پھیلی ہے رات سرمئی آنچل سی ہر طرف
نکلا ہے چاند سب کو لبھاتی ہے چاندنی
آنگن کو میرے جب بھی سجاتا ہے نیا چاند
آنکھوں سےمیرے نیر بہاتی ہے چاندنی
سجنی کا روپ جب بھی چراتا ہے نیا چاند
تب تب سجن کا ساتھ نبھاتی ہے چاندنی
جب جب حسین خواب دکھاتا ہے نیا چاند
ملنے کا انتظار بڑھاتی ہے چاندنی
خوشیوں کا دورساتھ میں لاتا ہے نیا چاند
پر شامِ غم میں ساتھ نبھاتی ہے چاندی
چوکھٹ کا چاند اور ہے آنگن کا چاند اور
لیکن سبھی کا ساتھ نبھاتی ہے چاندنی
ہر شب صداۓ دل ہے ریحانہ نئی نئی
ہر شب کی داستان سناتی ہے چاندنی
ریحانہ علی