ملے گی میری بھی کوئی نشانی چیزوں میں
پڑی ہوئی ہوں کہیں میں پرانی چیزوں میں
مرے وجود سے قائم ہیں بام و در میری
سمٹ رہی ہے مری لامکانی چیزوں میں
لپک رہا ہے میری سمت نقرئی بازار
مچل رہی ہے کوئی شادمانی چیزوں میں
یہ خوشنما ئی لہو کے عوض خریدی ہے
گھلا ہوا ہے نگاہوں کا پانی چیزوں میں
بہشت سے ہی میں آئی زمین پر لیکن
شمار میرا نہیں آسمانی چیزوں میں
یہ جانتے ہوئے کوئی وفا شناس نہیں
بسر ہوئی ہے مری زندگانی چیزوں میں
وہ اور ہوتی ہیں جو ٹوٹتی نہیں شاید
لکھا گیا ہے مجھے آنی جانی چیزوں میں
پھر آیا بھولا ہوا خواب، رات میں نیناں
لکھی ہوئی تھی پرانی ،کہانی چیزوں میں
فرزانہ نیناں