- Advertisement -

زرداری صاحب کیخلاف مقدمہ

ایک اردو کالم از علی عبد اللہ ہاشمی

زرداری صاحب کیخلاف مقدمہ

زرداری صاحب کیخلاف وہ سیاسی مقدمات جو نوے کی دہائی میں ن لیگ نے بنائے انکا جواب تو میاں نواز شریف کی ‘معذرت’، چیئرمین احتساب کمیشن سیف الرحمٰن کے ‘پاوں پڑنے’ اور بعد ازاں عدالتوں سے ‘بریت’ میں موجود ہے۔ رہ گیا میاں صاحب کے آخری دور میں کھڑا کیا گیا "میگا منی لانڈرنگ سکینڈل” تو سالہا سال کے میڈیا ٹرائل، بڑھکوں اور الزامات کا مختصر احوال یہ ہے کہ تقریباً پانچ ماہ سے زرداری صاحب قید ہیں اور بدماشیہ اتحاد ابھی تک ان پر الزام لگانے سے قاصر ہے۔

میرا عنوان آج سیاسی مقدمات نہیں ہیں۔ پاکستان جیسی مقبوضہ ریاست میں سیاسی مقدمات بدماشیہ کی قدرت کے غماز ہوتے ہیں۔ اگر کوئی شخص انکی بابت کئیے گئے پراپوگنڈے سے متاثر ہو جائے تو وہ بذاتِ خود جاہل اور کچے پکے معدے کا مریض ہے۔ اہلِ علم و دانش اچھی طرح جانتے ہیں کہ آصف زرداری نے اس ملک کی مقتدر بدماشیہ کی دشمن نمبر 1 سے شادی کی تھی۔ اگر وہ ایک دھیلے کی کرپشن بھی کرتا تو بھٹو خاندان کے لہو کے پیاسے زرداری سمیت بھٹو خاندان کو نشانِ عبرت بنا دیتے۔ ابھی کچھ نہیں کیا تو مسٹر ٹین پرسنٹ، قبضہ گروپ، قاتل اور پتہ نہیں کیا کیا کہا گیا مگر تاریخ گواہ ہے کہ ججوں سے لیکر سالہا سال الزامات کی تشہیر پر مامور صحافی تک اپنے اپنے الزامات پر شرمندہ ہو کر مرے۔

مجید نظامی ذاتی زندگی میں خائین اور تا عمُر بدماشیہ کا اول نمبر ٹاوٹ تھا۔ ان الزامات کے جھوٹا ہونے پر اس سے بڑھ کر دلیل کیا ہوگی کہ تیس سال کردار کشی کرنے کے بعد اسی مجید نظامی نے آصف علی زرداری کو "مردِ حُر” کا خطاب دیا۔ مسئلہ نہ کچے پکے معدے والے ہیں نہ ہی نسل در نسل بدماشیہ کے چٹے بٹے، میری تحریر کا مرکزی مقدمہ زرداری دور میں اٹھنے والے سوالات ہیں جنہوں نے پارٹی کی ساکھ اور ووٹر کو متاثر کیا۔ یہاں دو ذیلی واقعہ بیان کرنا ضروری ہے تاکہ مضمون رفتار پکڑ سکے۔

بی بی کی شہادت کے بعد حامد میر سیالکوٹ بار میں بطور مہمان آئے۔ 27 دسمبر پر بات کرتے میر صاحب نے بتایا کہ 2007 وطن واپسی کے بعد ایک انٹرویو میں وقفے کے دوران انہوں نے محترمہ سے انکی پارٹی آئیڈیالوجی اور پاکستان واپسی پر بیانات میں تضاد کیجانب اشارہ کیا تو جواب میں بی بی صاحبہ نے کہا، "دیکھو حامد، تم میرے بھائی ہو، تم جانتے ہو میں نے بڑی مشکل سے دباو ڈلوا کر مشرف کو مجبور کیا ہے کہ وہ حقیقی اپوزیشن کو ملک میں آنے دے۔ تم فکر نہ کرو، میں اقتدار میں آئی تو ہوگا وہی جو میرے ملک میری عوام کے حق میں بہتر ہوگا۔۔”

بینظیر بھٹو قتل کیس میں پیپلزپارٹی حکومت کے وکیل ایم اظہر چودھری صاحب سے میری یاد اللہ ہے۔ ایکدن میں نے ان سے سوال کیا کہ بی بی صاحبہ کے قتل کیس کا کیا بنے گا؟ انہوں نے کہا کہ "اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہے۔ قتل کرنے والے بی بی کیساتھ بم دھماکے میں مارے گئے، گرفتار شدگان راستہ دکھانے والے یا سونے کیلئے جگہ فراہم والے ہیں جن پر کچھ ثابت نہیں ہو سکتا۔ بلاسٹ کیسز میں سب سے اھم موقع واردات سے اکٹھے کیئے گئے شواہد ہوتے ہیں جنہیں گواہیوں کیساتھ کرابوریٹ کر کے پراسیکیوشن اپنا کیس بناتی ہے۔ پرویز مشرف نے دھماکے کے آدھے گھنٹے کے اندر جائے وقوعہ دُھلوا کر سارے ثبوت مٹا دیئے تھے۔ خالد شہنشاہ کو ایجنسیوں اور بیت اللہ محسود کو امریکہ نے مار دیا۔ اور چار گرفتار ملزمان کیخلاف کوئی گواہی دینے کو تیار نہیں ہے لہذا اس کیس میں کچھ نہیں بنے گا”۔

تو جو کچے معدے والے پیپلز پارٹی پر الزام دھرتے ہیں کہ ہم نے بی بی کے قاتلوں کو سزا نہیں دی انکو اول تو یہ حقائق پتہ ہونے ضروری ہیں دوسرا یہ کہ اس کیس میں ہماری الگ سے رجسٹرڈ ایف آئی آر کا مرکزی ملزم پرویز مشرف ہے جسے 2014 کے دھرنے کی آڑ میں راحیل شریف نے ملک سے بھگا دیا۔

دوسرا مقدمہ کہ ہم نے پرویز مشرف کو گارڈ آف آرنر کیوں دیا؟ تو آئینِ پاکستان کے سرِ ورق پر لکھا ہے کہ "یہ آئین اپنے اندر تمام قوتیں و اختیارات صدرِ پاکستان کے عہدے میں رکھتا ہے” یعنی تمام آئینی اختیارات کا سرچشمہ صدر کی کرسی ہے، وزیراعظم سمیت تمام ادارے صدرِ پاکستان کی کرسی میں رکھے اختیارات سے ملکی نظام چلاتے ہیں۔ مشرف بیشک آمر تھا مگر لیگل فریم ورک آرڈر کے بعد وہ ملک کا آئینی صدر تھا جسکے استغفے پر آصف زرداری کی کابینہ نے نہیں بلکہ اسکے اپنے ادارے فوج نے اسے گارڈآفآرنر دیا جو اسکا آئینی استحقاق بھی تھا۔ بددیانت لوگ بس یہ نہیں بتاتے کہ اسی آصف زرداری نے پرویز مشرف کے مواخذے کی تحریک پیش کی اور ذلیل ہو کر اترنے سے بچنے کیلئے مشرف نے خود استغفی دیکر اپنی جان بچائی۔

ایک اور مقدمہ جو آصف زرداری کیخلاف بنایا گیا کہ جب بی بی صاحبہ نے اپنے قتل کی سازش میں ممکنہ سازش کنندگان میں پرویز الہی کا نام بھی دیا تھا تو پھر آصف زرداری نے اسے ڈپٹی پرائم منسٹر کیسے لے لیا؟ بی بی صاحبہ کا شک کا اظہار اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن زرداری صاحب نے اس کیس پر اقوامِ متحدہ اور اسکاٹ لینڈ یارڈ دونوں سے تفتیش کروائی تھی جو سارے کے سارے کُھرے پرویز مشرف اور اسکے ادارے کیطرف نکلتے تھے تو پھر ایک بیگناہ کو صرف اس لیئے راندہِ درگاہ کر دیتے کہ ہمارا شک غلط تھا؟ ایم کیو ایم اور اے این پی کی مسلسل بلیک میلنگ کو ختم کرنے اور حکومت کے استحکام کیلئے اگر ہم نے ق لیگ کو حکومت میں شامل کیا تو اس میں جہالت زادوں کے پیٹ میں مروڑ کیوں اُٹھتے ہیں؟

رہ گئی یہ بات کہ ناہید خان سمیت بی بی صاحبہ کے بہت سے معتمدوں کو فارغ کیوں کیا گیا تو بی بی صاحبہ نے 1986 میں وطن واپسی پر پارٹی غداروں سمیت ان تمام مہبوت الحواس لیڈران کو فارغ کیا جنہیں یہ زُعم تھا کہ وہ بھٹو صاحب کیساتھ کام کرنے کیوجہ سے موجودہ لیڈرشِپ(بی بی) سے زیادہ معاملات کو سمجھتے ہیں اور پھر ہر قائد کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی ٹیم چُنے۔ دوسرا ناہید خان محترمہ کی 1983 سے تنخواہ دار سیکرٹری تھی جسے جام صادق کے انگلینڈ والے گھر سے امپورٹ کر کے بی بی صاحبہ پاکستان لائیں اور صفدر عباسی کو 1988 میں بی بی صاحبہ کا پرنسپل سیکرٹری بنایا گیا۔ ناہید اور صفدر کی شادی کے بعد ان دونوں نے جیالوں کیلئے فائنل بیرئیر کا روپ دھار لیا اور انکی ہزاروں زیادتیاں پارٹی تاریخ کا حصہ ہیں۔ بی بی کی شہادت کیساتھ ہی ناہید خان کے خمیر میں اسکی جائے پیدائش (راولپنڈی کے کُوفے) کی مٹی نے اپنا رنگ دکھایا اور وہ فوراً ہی قاتلوں کی آلہ کار اور بی بی کے ورثاء کی دشمن بن گئی۔ اس نے بدماشیہ کے پراپوگنڈے بینیفیشری کا ماوتھ پیس بن کر اوچھے سے اوچھا حملہ کیا مگر آصف علی زرداری یا بھٹو خاندان کی گریس یہ ہے کہ انہوں نے اس نمک حرام ملازمہ کو پلٹ کر "فِٹے منہ” تک نہیں کہا حالانکہ جیالوں کی نظر سے اسکے سر میں 500 جُوتے واجب تھے۔

کرپشن کے نئے پرانے سارے کیس اور یہ اخلاقی مقدمے جو بُوٹ چاٹ سیاستدانوں اور پارٹی غداروں سمیت آلہ کار صحافیوں نے آصف زرداری کے کردار پر لگائے ان سب کا فیصلہ زمین و آسمان دونوں پر ہونا باقی ہے۔ زمینی عدالتوں سے سُرخرو ہونے میں اب دیر نہیں ہے لیکن جن کچے معدے والے کارکنوں نے بجائے (سازش) پراپوگنڈے کو سمجھنے کے درست مان لیا وہ تاریخی گدھے ہیں اور دُنیا جانتی ہے کہ ایک بُوٹ دماغ گدھا مکے کا حاجی تو بن سکتا ہے بھُٹو کا جیالا نہیں رہ سکتا لہذا خس کم جہاں پاک۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سید محمد زاہد کا اردو کالم