فصل پنجم
فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ کی لڑائی
ادھر تو نصوح اور سلیم دونوں باپ بیٹیوں میں یہ گفتگو ہو رہی تھی، ادھر اتنی ہی دیر میں فہمیدہ اور بڑی بیٹی نعیمہ میں خاصی ایک جھوٹ ہو گئی۔ نعیمہ اس وقت دو برس کی بیاہی ہوئی تھی۔ پانچ مہینے کا پہلونٹی کا لڑکا گود میں تھا۔ ناز و نعمت میں پلی، نانی کی چہیتی، ماں کی لاڈو۔ مزاج کچھ تو قدرتی تیز، ماں باپ کے لاڈ پیار سے وہی کہاوت ہوئی، ” کریلا اور نیم چڑھا” اور بھی چڑ چڑا ہو گیا تھا۔ ساس نندوں میں بھلا اس مزاج کی عورت کا کیوں گزر ہونے لگا تھا۔ گھونگھٹ کے ساتھ منہ کھلا کا کھلا تھا کہ سسرال کا آنا جانا بند ہو گیا۔ اب چھ مہینے سے ماں کے گھر بیٹھی ہوئی تھی۔ مگر رسی جلی پر بل نہ گیا۔ باوجودے کہ اجڑی ہوئی میکے میں پڑی تھی، مزاج میں وہی طنطنہ تھا۔ کنوارے پن ہی میں سوا گز کی زبان تھی۔ کچھ یوں ہی سا لحاظ بڑی بوڑھیوں کا تھا، سو بیا ہے سے ان کو بھی دھتکار بتائی۔ جنے پیچھے تو اور بھی کھل کھیلی۔ مردوں تک لحاظ اٹھا دیا۔
فہمیدہ نے میاں کے رو برو بیٹیوں کا بیڑا اٹھانے کو اٹھا لیا تھا، لیکن نعیمہ کے تصور سے رونگٹے بدن پر کھڑے ہو ہو جاتے تھے اور جی ہی جی میں کہتی کہ ذرا بھی میں اس بھڑوں کے چھتے کو چھیڑوں گی تو میرا سر مونڈ کر ہی بس نہیں کرے گی۔ سوسو منصوبے ذہن میں باندھتی تھی، مگر نعیمہ کی شکل نظر پڑی اور سب غلط ہو گئے۔ ماں تو موقع اور محل ہی سوچتی رہی، نعیمہ نے خود ہی ابتدا کی۔ بڑے سویرے بچہ حمیدہ کو دے کر خود ہاتھ منہ دھونے میں مصروف ہوئی۔ جب حمیدہ نے دیکھا کہ نماز کا وقت ہاتھ سے نکلا جاتا ہے، بچے کو بٹھا نماز پڑھنے لگی۔ بچہ کسی اکھل کھری ماں کا تھا، بٹھانا تھا کہ بلبلا اٹھا۔ آواز سن کر ماں دوڑی آئی۔ دیکھا کہ بچہ اکیلا پڑا رو رہا ہے اور حمیدہ کھڑی نماز پڑھ رہی ہے۔ دور سے دوڑ، پیچھے سے حمیدہ کے ایسی دو ہتھڑ مارے کہ حمیدہ رکوع سے پہلے سجدے میں جا گری۔
اس وقت فہمیدہ کسی ضرورت سے دوسرے قطعے میں گئی تھی۔ پھر کر آئی تو دیکھا کہ حمیدہ چبوترے پر پانی کا لوٹا لیے ہوئے سر جھکائے بیٹھی ہے اور ناک سے خون کی تللّی جاری ہے۔ گھبرا کر پوچھا کہ ابھی تو میں تم کو نماز پڑھتی چھوٹ گئی تھی۔ اتنی ہی دیر میں یہ ہو کیا؟ دیکھوں کہیں نکسیر تو نہیں پھوٹی۔
حمیدہ بے چاری نے ابھی کچھ جواب بھی نہیں دیا تھا کہ نعیمہ خود بول اٹھی: "اے بی ہوا کیا۔ ذرا کی ذرا لڑ کے کو دے کر میں منہ دھونے چلی گئی۔ اس نکمی سے اتنا نہ ہو سکا کہ ذرا لڑ کے کو لیے رہے۔ آخر میں کہیں کنویں میں گرنے تو نہیں چلی گئی تھی۔ لڑ کے کو بلکتا ہوا لٹا، نیت باندھ، نماز پڑھنے کھڑی ہو گئی۔ میں جو آئی تو ذرا ہولے سے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا کہ آپ دھڑام سے گر پڑی۔ کہیں تخت کی کیل لگ لگا گئی ہو گی۔
ماں : اچھا تم نے ہولے سے ہاتھ رکھا تھا کہ نگوڑی لڑکی کے فصد کے برابر خون نکلا؟ کیسے دنیا میں لہو سفید ہو گئے ہیں۔
نعیمہ: لہو سفید نہ ہو گئے ہوتے تو کیا یوں بھانجے کو روتا ہوا چھوڑ دیتی؟
ماں : لیکن اس نے بے سبب نہیں چھوڑا۔ اس کی نماز چلی جا رہی تھی۔
نعیمہ: بلا سے صدقے سے نماز کو جانے دیا ہوتا۔ نماز پیاری تھی یا بھانجا؟
ماں : لڑکی، ڈر خدا کے غضب سے۔ کیا کفر بک رہی ہے۔ اس حالت کو پہنچ چکی اور پھر بھی درست نہ ہوئی۔
نعیمہ: خدا نہ کرے میری کون سی حالت تم نے بُری دیکھی؟
ماں : اس سے بد تر حالت اور کیا ہو گی کہ تین برس بیاہ کو ہوئے اور ڈھنگ سے ایک دن اپنے گھر میں رہنا نصیب نہیں ہوا۔
نعیمہ: وہ جنم جلا گھر ہی ایسا دیکھ کر دیا ہو تو کوئی کیا کرے۔
ماں : وہاں بیٹی سچ ہے۔ میں تو تیری ایسی ہی دشمن تھی۔ مائیں بیٹیوں کو اسی واسطے بیاہا کرتی ہوں گی کہ بیٹیاں اجڑی ہوئی ان کے گھٹنے لگی بیٹھی رہیں۔
نعیمہ: کیا جانیں۔ ہم کو تو آنکھیں میچ کر کنویں میں دھکیل دیا تھا، سو پڑے ڈبکیاں کھا رہے ہیں۔
ماں : خیر بیٹی، اللہ رکھے تمہارے آگے بھی اولاد ہے۔ اب تم سمجھ بوجھ کر ان کی شادی بیاہ کرنا۔
نعیمہ: کریں ہی گے۔ نہ کریں گے تو کیا تمہارے بھروسے بیٹھے رہیں گے۔
ماں : میں کیا کہتی ہوں کہ میرے بھروسے بیٹھی رہنا۔ بڑا بھروسا خدا کا ہے۔
نعیمہ: کیسا خدا۔ بھروسا اپنے دم قدم کا۔
ماں : یہ دوسری دفعہ ہے کہ تو خدا کی شان میں بے ادبی کر چکی ہے۔ اب کی تو نے اس طرح کی بات منہ سے نکالی اور بے تامل تڑ سے طمانچہ تیرے منہ پر کھینچ ماروں گی۔
نعیمہ: سچ کہنا۔ بڑی بے چاری مارنے والی۔ مار اپنی چہیتی کو، مار اپنی لاڈو کو۔
ماں : کیسی چہیتی، کیسی لاڈو۔ قربان کی تھی وہ اولاد جو خدا کو نہ مانے۔
نعیمہ: یہ کب سے؟
ماں : جب سے خدا نے ہدایت دی۔
نعیمہ: چلو خیر جب ہم بھی تمہاری عمر کو پہنچیں گے تو بہتیرا خدا کا ادب کر لیں گے۔
ماں : آپ کو خیر سے غیب دانی میں دخل ہے کہ بارے میری عمر تک پہنچنے کا یقین ہے۔
نعیمہ : اب تم میرے مرنے کی فال نکالو۔
ماں : نہ کوئی کسی کی فال سے مرتا اور نہ کوئی کسی کی فال سے جیتا۔ جس کی جتنی خدا نے لکھ دی۔
نعیمہ : ورنہ تم مجھ کو کا ہے کو جینے دیتیں۔
ماں : اتنا ہی اختیار رکھتی ہوتی تو تجھ کو آدمی ہی نہ بنا لیتی۔
نعیمہ : نوج تو کیا میں حیوان ہوں۔
ماں : جو خدا کو نہیں جانتا وہ حیوان سے بھی بدتر ہے۔
نعیمہ : اب تو ایک حمیدہ تمہارے نزدیک انسان ہے۔ باقی سب گدھے ہیں۔
ماں : حمیدہ کا تجھ کو کیا جلاپا پڑ گیا۔ تو اس کی جوتی کی برابری تو کر لے۔
نعیمہ : خدا کی شان، یہ اٹھک بیٹھک کر لینے سے حمیدہ کو ایسے بھاگ لگ گئے !
فہمیدہ دو مرتبہ بیٹی کو منع کر چکی تھی اور سمجھا دیا تھا کہ اگر پھر دین کی با توں میں بے ادبانہ کلام کرے گی تو میں بے تامل منہ پر طمانچہ ماروں گی۔ اس مرتبہ جو نعیمہ نے نماز کو اٹھک بیٹھک کہا تو حرارت دین داری نے فہمیدہ کو بے اختیار کیا اور اس نے واقع میں جیسا کہا تھا، نعیمہ کے منہ پر ایک طمانچہ ایسے زور کا مارا کہ منہ ہی تو پھر گیا۔ طمانچے کا لگنا تھا کہ نعیمہ نے ایک آفت توڑ ماری۔ سب سے پہلے تو اس نے ” دے دھواں دھواں، دے دھواں دھواں ” اپنے بے زبان معصوم بچے کو پیٹ ڈالا۔ اگر لوگ اس کی گود سے بچے کو نہ چھین لیں تو لڑ کے کا خون ہی کر چکی تھی۔ اس کے بعد تو اس نے عجب عجب فیل مچائے۔ گھنٹوں تک تو پٹخیاں کھایا کی۔ کپڑوں کا ایک تار باقی نہ رکھا۔ نہیں معلوم اس کا سر تھا یا لوہے کا گولا تھا کہ ہزاروں دو ہتھڑیں اس پر پڑیں، آدھے سے زیادہ کھسوٹ ڈالے، سینکڑوں ٹ کریں دیواروں میں ماریں۔ حیرت ہے کہ وہ سر بچا تو کیوں کر بچا۔ اس کے پاکھنڈ دیکھ کر سارا گھر تھرا اٹھا اور لوگ ڈرنے لگے کہ ایسا نہ ہو تھانے والے غل سن کر اندر گھس آئیں۔ بارے بہ مشکل پکڑ دھکڑ کر کوٹھڑی کے اندر دھکیل اوپر سے کنڈی لگا دی۔
نیچے گھر میں اتنا غل ہوا مگر بالا خانہ کچھ ایسا الگ سا تھا کہ نصوح کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ جب سلیم باپ سے باتیں کر کے نیچے اترا تو فہمیدہ اوپر گئی۔ اس وقت تک غیظ و غضب اور رنج و تعجب کے آثار اس کے چہرے سے نمودار تھا۔ دور ہی سے نصوح نے پوچھا : ” خیریت تو ہے؟”
فہمیدہ : اللہ تعالیٰ خیریت ہی رکھے۔ کیوں تم نے کیا سمجھ کر پوچھا؟
نصوح : تمہارے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں۔ ہونٹھ خشک ہو رہے ہیں۔ سر سے پاؤں تک کھڑی کانپ رہی ہو۔ آخر یہ سب بے سبب تو نہیں ہیں۔
فہمیدہ نے نعیمہ کی اور اپنی تمام سرگزشت بیان کی۔ نصوح یہ ماجرا سن کر دم بہ خود ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کے قریب دونوں میاں بیوی چپ سناٹے میں بیٹھے رہ گئے۔ آخر فہمیدہ نے کہا : ” پھر اب کیا صلاح؟”
نصوح : صلاح یہی ہے کہ جو ہونی ہو سو ہو، اب نرمی اور لیعت؟؟ نہیں کرنی چاہیے۔ معاذ اللہ ایسا برا عقیدہ! بھلا کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ کسی اہل اسلام کے خاندان کی لڑکی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ خدا اس کے نزدیک کوئی چیز نہیں۔ مجھ کو تو اس کے ساتھ کھانا حرام ہے۔ بڑی خیریت گزری کہ میں وہاں موجود نہ تھا ورنہ میرے روبرو ایسا کلمہ اس کے منہ نکلا ہوتا تو شاید میں تلوار کھینچ مارتا۔ ایسی اولاد کے ہونے سے نہ ہونا اچھا۔ بہتر ہو گا کہ ابھی پالکی منگا کر اس کو سسرال پہنچا دو۔
فہمیدہ : بھلا کیسی باتیں کہتے ہو۔ بے طلب بے تقریب بھیج دیں تو ایک تو پہلے ہی سے اس نے اپنی عزت کو خاک میں ملا رکھا ہے، رہی سہی اور بھی غارت ہو۔ مجھ کو کیا خبر تھی، ورنہ تمہاری عیادت کی تقریب سے عورت مرد سارا سمدھیانا آیا تھا اور اس کے لے جانے کے لیے منتیں کرتے تھے۔
نصوح : جو کم بخت عورت خدا کی عزت و حرمت نہ رکھے، وہ دنیا کی ہر طرح کی بے عزتی اور بے حرمتی کی سزاوار ہے۔ جب اس کو خدا کا پاس نہیں، مجھ کو ہرگز ہرگز اس کا پاس محبت نہیں۔
فہمیدہ : میں کہتی ہوں شاید اب بھی یہ درست ہو جائے۔
نصوح : توبہ توبہ! اس کے دل میں مطلق نور ایمان نہیں۔ وہ توسرے سے خدا ہی کی قائل نہیں، پھر کیا درستی کی امید۔
فہمیدہ : سسرال بھیج دینا تو ٹھیک نہیں۔
نصوح : پھر مجھ سے کیا صلاح پوچھتی ہو، جو تمہارے جی میں آئے سو کرو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اس کے ایسے خیالات ہوں اور میں اس کو اپنے گھر میں رہنے دوں۔ اور وہ رزق جو ہم کو خدائے تعالیٰ اپنی مہربانی اور عنایت سے دیتا ہے، وہ شخص اس میں کیوں شریک ہو جو خدا ہی کو نہیں مانتا۔
فہمیدہ : لیکن خدائے تعالیٰ اپنا رزق کسی سے دریغ نہیں رکھتا۔ برے بھلے سب اس کے یہاں سے روزی پاتے ہیں۔
نصوح : میں اس کے رزق کا انسداد نہیں کرتا لیکن میں اپنے رزق میں من کر خدا کو شریک نہیں کرنا چاہتا۔
فہمیدہ : ایسی سختی سے گھر میں کوئی کا ہے کو رہنے لگا۔
نصوح : میں اس گھر کی فکر میں ہوں جہاں مجھ کو ہمیشہ رہنا ہے۔ دنیا کا گھر چند روزہ گھر ہے۔ آج اجڑا تو اور کل اجڑا تو، ایک نہ ایک دن اجڑے گا ضرور۔ میرے آباد کرنے سے آباد رہ سکتا ہے۔
فہمیدہ : ہاں لیکن ایک مرے پیچھے اجڑنا اور ایک جیتے جی اجڑنا، ان دونوں میں بڑا فرق ہے۔
نصوح : لیکن تم دل کی ایسی کچی تھیں تو تم نے ہامی کیوں بھری اور تمہارا یہ حال ہے تو واقع میں خاندان کی اصلاح ہو نہیں سکتی۔
فہمیدہ : کیا اولاد کے واسطے جی نہیں کُڑھتا۔ میں نے ان کو اسی دن کے واسطے پالا تھا کہ یہ بڑے ہو کر مجھے سے چھوٹ جائیں۔ بے شک مجھ سے تو اتنا صبر نہیں ہو سکتا۔
اتنا کہہ کر فہمیدہ کا جی بھر آیا اور وہ رونے لگی۔
نصوح : میں نہیں کہتا کہ تمہارا جی نہیں کڑھتا اور نہ میں یہ کہتا ہوں کہ مجھ کو تمہارے برابر ان کی محبت ہے۔ لیکن میں نے یہ بھی تو نہیں کہا کہ تم ان کو چھوڑ دو۔
فہمیدہ : کیوں، ابھی تم نے نعیمہ کو سسرال بھیج دینے کے لیے نہیں کہا؟
نصوح : کیا نعیمہ کبھی سسرال نہیں گئی، اور سسرال بھیج دینا اور چھوڑ دینا ایک ہی بات ہے؟
فہمیدہ : لیکن ایک ہنسی خوشی جانا، جس طرح دنیا جہان کی بیٹیاں می کے سے جایا کرتی ہیں اور ایک لڑ کر جانا اور لڑائی بھی ایسی کہ لڑائی کہ عمر بھر ایسی نہیں ہوئی۔ مجھ کو یاد نہیں کہ میں نے نعیمہ کو کبھی ہاتھ بھی لگایا ہو۔ جواب اس سے زیادہ سخت سخت اس نے دیے۔ مگر جب وہ جوان تھی، میں ہنس دیا کرتی۔ اس مرتبہ نہیں معلوم میں کچھ ایسی آپے سے باہر ہو گئی کہ تھپڑ کھینچ مارا۔ اتنا بھی مجھ کو خیال نہ رہا کہ یہ بیاہی ہوئی ہے، صاحب اولاد ہے۔
نصوح : اگر تم نے اس کو تھپڑ مارا ہوتا تو میں تم سے پوچھتا کہ تم کیسی دین دار تھیں کہ ایک شخص نے جس کے دفع کرنے پر تم کو قدرت حاصل تھی، تمہارے منہ پر خدا کی شان میں بے ادبی کی اور استخفاف و استہزاء کے ساتھ اس کا نام لیا اور مطلق تم کو برا نہ لگا۔
فہمیدہ : برا نہ لگتا تو میں مارتی ہی کیوں؟
نصوح : بے شک تم نے مارا تو بہت بجا کیا۔ لیکن اب اس پر افسوس کرنا، اپنے تئیں ملزم بنانا ہے۔
فہمیدہ : لیکن لڑکی جو ہاتھ سے جاتی ہے۔
نصوح : یہ حالت تمہارے لیے ایک امتحان کی حالت ہے۔ ایمان اور اولاد دو چیزیں ہیں اور سخت افسوس کی بات ہے کہ دونوں کو اکٹھا ہونا ممکن نہیں معلوم ہوتا، اس واسطے کہ ہمارے اولاد دین کی عدو اور ایمان کی دشمن ہے۔ اگر اولاد کا منہ کریں تو دین و ایمان ہاتھ سے جاتا ہے اور اگر ایمان کا حفظ کریں تو اولاد چھوٹتی ہے پس تم کو اختیار ہے دونوں میں سے جس کو چاہو لو۔
فہمیدہ : میں ایمان لوں گی، میں ایمان لوں گی جو عاقبت میں میرے کام آئے گا۔
نصوح : جزاک اللہ۔ صد آفرین ہے تمہاری فہم پر۔ بے شک ایمان بڑی چیز ہے۔
فہمیدہ : رہی اولاد، کیا کروں چھاتی پر پتھر رکھوں گی۔ مجھ کو کیا خبر تھی کہ اس پیٹ کم بخت کو یوں آگ لگے گی اور اس ناشاد کوکھ میں ایسے کیڑے پڑیں گے۔
فہمیدہ یہ کہہ کر بڑے درد و حسرت کے ساتھ روئی کہ اس کو دیکھ کر نصوح بھی بے قرار ہو گیا۔
تھوڑی دیر کے بعد نصوح بولا : ” دل کو مضبوط رکھو اور اللہ کو یاد کرو۔ جب تمہاری نیت بخیر ہے تو سب انشاء اللہ بہتر ہی ہو گا۔ وہ بڑا قادر ہے، چاہے تو دم کے دم میں ہمارے ساری اولاد کو ولی کر دے۔ دعا کرو کہ اللہ ان کو نیک راہ دکھائے۔
فہمیدہ : رواں دواں دعا کر رہا ہے۔ اللہ ہی قبول کرے اور اسی سے لو لگی ہے۔
نصوح : بھلا نعیمہ کوٹھری کے اندر کیا کر رہی تھی۔
فہمیدہ : رو رہی تھی اور کیا کر رہی تھی۔ میں چلتے ہوئے کہتی آئی تھی کو کواڑ کھول کر اس کو پانی وانی پلا دینا۔
نصوح : اور کھانا؟
فہمیدہ : کیا خوب۔ نہ ابھی دو دن، نہ چار دن، ابھی سے کھانا۔
نصوح : یہ تو بڑی خرابی کی بات ہے۔
فہمیدہ : اور کیا، رونا تو کھانے ہی کا ہے۔ وہ مجھ سے چاہے مہینوں نہ بولتی، مگر کھانا کھا لیتی تو کچھ اندیشے کی بات نہ تھی۔ ادھر اس کو تکلیف ہو گی، ادھر بچہ دودھ کو پھڑ کے گا۔
نصوح : تم اپنا دودھ پلا دینا۔
فہمیدہ : میں تو اس کو سو دفعہ پلاؤں مگر اللہ رکھے سیانہ بچہ ہے، ماں کو گود پہچانتا ہے۔ کہتے ہیں کہ چالیس دن کا بچہ ماں کی پرچھائیں دیکھنے لگتا ہے۔ اب تو سوتے کو ایک دفعہ میں پلا آئی ہوں، جاگتے میں پئے تو جانوں کہ پیا۔
نصوح : کھانا کھانے کی تدبیر ضرور کرنی چاہیے۔ میں جا کہوں؟
فہمیدہ : نہ، خدا کے لیے تم اترنا ہی مت۔
نصوح : میں آہستگی سے سمجھا دوں گا۔
فہمیدہ : مردوں کی آہستگی کا کچھ اعتبار نہیں، اور تمہاری آہستگی کہ ابھی با توں ہی با توں میں تم تلوار کھینچنے لگے تھے۔
نصوح : میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ انشاء اللہ کسی طرح کی سختی نہیں کروں گا۔
فہمیدہ : پھر بھی کیا ہوا۔ تمہارا دخل دینا مناسب نہیں۔ آخر ایک آدمی گھر میں ایسا بھی ہونا چاہیے کہ چھوٹے بڑے سب اسکا لحاظ کریں اور فرض کرو کہ تم گئے اور رنج اس کا تازہ ہے، اس نے نہ مانا تو پھر بڑی دشواری پڑے گی اور اس کو یہ شرم دامن گیر ہو گی کہ دیکھو، باپ تک مجھ کو سمجھا کر ہار گئے اور میں نے کسی کا کہنا نہ مانا، اب جو من جاؤں گی، تو باپ جی میں کیا کہیں گے۔
نصوح : اچھا تم ایک تدبیر کرو۔ اس کہ سہیلیوں میں سے کوئی سمجھ دار ہے، تو اس کو بلا بھیجو۔ وہ سمجھا بجھا کر راضی کر لے گی۔
فہمیدہ : ہاں یہ ایک معقول تدبیر ہے۔ میں اپنی بھانجی صالحہ کو بلاتی ہوں۔ دونوں ہم عمر ہیں اور دونوں کی ملی بھگت بھی بہت ہے۔
نصوح : بس تمہارے انتخاب پر میرا صاد ہے۔ تمہاری بہن کے گھر نماز روزے کا بھی خوب چرچا رہا کرتا ہے۔ جمعے کے جمعے وعظ ہوتا ہے۔ صالحہ کے خیالات ضرور دین دارانہ خیالات ہوں گے۔
فہمیدہ : اللہ اکبر! ان کے گھر کی دین داری ضرب المثل ہے۔ ہماری بہن، اللہ رکھے، اتنی بڑی نمازن ہیں کہ انہوں نے اپنے ہوش میں تو کسی وقت کی نماز قضا نہیں کی۔ اتنا تو بال بچوں کو بکھیڑا ان کے ساتھ ہے اور خدا کی مرضی گھر میں سدا تنگی رہتی ہے، سب کام کاج بے چاری کو اپنے ہی ہاتھوں سے کرنا پڑتا ہے، لیکن پنج وقتی نماز اور فمی بشوق کی منزل کیا امکان کہ قضا ہو۔
نصوح : سبحان اللہ۔ وہی لوگ بڑے خوش قسمت ہیں۔ دنیا کے فقیر دین کے امیر۔
فہمیدہ : اور لطف یہ کہ ہر وقت ہشاش بشاش۔ کبھی عسرت کی شکایت یا تنگ دستی کا گلہ کرتے ہم نے ان کو سنا نہیں اور چھوٹے بڑے سب مستغنی اور سیر چشم۔ ہم کو اتنا تو خدا نے دے رکھا ہے لیکن میں سچ کہتی ہوں، کہیں شادی بیاہ میں کسی بیوی کو اپنے سے بہتر زیور یا کپڑا پہنے دیکھتی ہوں تو ضرور میرا جی کڑھتا ہے اور بچوں کا بھی یہی حال ہے۔ کوئی چیز کسی کے پاس ذرا دیکھ پائیں، جب تک ویسی ہی موجود نہ ہو جائے میری جان کھا جائیں۔ لیکن ہماری بہن کے دل میں کبھی ایسا خیال ہی نہیں آیا۔ اگر ان کو مجھ پر حسد ہوتا تو موقع تھا۔ لیکن میرے اور میرے بچوں کے زیور اور کپڑے دیکھ کر باغ باغ ہو جاتی ہیں اور ہر چیز پر کہے جاتی ہیں۔ ماشاء اللہ، چشم بد دور، اللہ زیادہ دے، اللہ نصیب کرے۔ بچے ہیں، کہ دنیا کی نعمت ان کے سامنے رکھ دو، آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔
نصوح : سچ ہے، ” الغنی غنی النفس۔ ” ” تونگری بہ دل است نہ بہ مال۔ ” دنیا کے مال و حشمت کی ان کی نظروں میں وقعت ہی نہیں تو پھر حسد کیوں کریں۔ ”
فہمیدہ : اور مجھ سے اور میرے بچوں سے اس قدر محبت کرتی ہیں کہ ڈولی سے اترتی ہیں تو اوپر تلے بلائیں لیے چلی جاتی ہیں۔ بلکہ مجھ کو ان کے بچوں سے ذرا بھی انس نہیں۔
نصوح : ان کی یہ محبت و ہمدردی خدا پرستی کی وجہ سے ہے اور کچھ تمہاری تخصیص نہیں، سب کے ساتھ ان کی یہی کیفیت ہو گی۔
فہمیدہ : بچوں کو ایسا سدھار رکھا ہے کہ کبھی آپس میں لڑتے ہی نہیں۔ ایک ہمارے بچے ہیں کہ ایک دم کو ایک کی ایک سے نہیں بنتی۔
نصوح : یہ ان کی تعلیم و تلقین کا نتیجہ اور ان کے اپنے عمدہ نمونے کا اثر ہے۔ مگر تم ان کو اکثر مہمان بلا کر اپنے یہاں رکھا کرو کہ ہمارے گھر پر بھی ان کا پرتو پڑے۔
فہمیدہ : ہماری بہن غیرت مند بڑی ہیں۔ میں نے کئی بار ان سے کہا تو یہی جواب دیا کہ میرے ساتھ بکھیڑا بہت ہے۔ تمہارے سسرال والے نہیں معلوم دل میں کیا سمجھیں، کیا کہیں، اس سے میرا آنا نہیں ہو سکتا۔ خدا کرے کہ تم بیٹے بیٹیوں کی شادیاں کرو، بیاہ کرو تو دیکھو بے بلائے پہنچتی ہوں یا نہیں۔
نصوح : کوئی سامان ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان کو فکر معاش سے فارغ البالی ہو۔
فہمیدہ : وہ ہمارے بہنوئی صاحب کچھ اس کی پیروی ہی نہیں کرتے۔ ان کا یہ مقولہ ہے کہ جتنا ہم کو اب ملتا ہے بس دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے کافی ہے۔
نصوح : گھر میں تکلیف رہا کرتی ہو گی۔
فہمیدہ : تکلیف ہونی ہی چاہیے۔ بیس روپے مہینے کی نو کری اور ہمارے بہنوئی کی سی احتیاط۔ اللہ رکھے، اتنا بڑا کنبہ، مگر جیسا میں نے تم کو کہا، جب سنا ان کو شکر گزاری ہی کرتے سنا اور کچھ خدا نے برکت بھی ایسی دی ہے کہ کپڑا لتا، گہنا پاتا، سامان، ظاہر حیثیت کے موافق کچھ برا نہیں۔ کسی کے قرض دار نہیں۔ نیوتا بیوہار کے ایسے کھرے کہ اگر کسی نے ان کے گھر ایک روپیہ دیا ہو گا تو انہوں نے دو ضرور دیئے ہوں گے۔ غرض کنبے اور برادری میں بھی کسی سے شرمندہ نہیں۔
نصوح : بڑی ہی اچھی زندگی ہے۔
فہمیدہ : اس میں شک نہیں۔ کیسی ہی مصیبت ہو، میں نے ان کو مضطر اور بے قرار نہیں دیکھا۔ ہر بات میں اللہ پر توکل، خدا پر بھروسا۔
نصوح : مجھ کو حیرت ہے کہ تم دونوں سگی بہنیں اور عاد توں میں اتنا تفاوت۔
فہمیدہ : ماں کے گھر تک تو میرا بھی یہی حال تھا۔ انہوں نے ہم دونوں کو یکساں کھایا، برابر پڑھایا۔ مگر برا مت ماننا، جب میں تمہارے پلے بندھی، تمہارے گھر میں آ کر جو دیکھا تو دین کا کچھ تذکرہ نہ کیا۔ رفتہ رفتہ نماز وغیرہ کی سب عادتیں چھوٹ گئیں۔ ہماری ماں، خدا جنت نصیب کرے، بڑی دین دار تھیں۔ جب دلہن کو رخصت کرتے ہیں تو دستور ہے کہ بیٹی کی ماں، بیٹے کی ماں سے کہا کرتی ہے کہ میں تمہاری خدمت کو یہ لونڈی دیتی ہوں۔ ہماری ماں نے، مجھ کو اب تک یاد ہے، رخصت کرتے وقت اماں جان سے کہا کہ دیکھو بوا، میری لڑکی نے آج تک نماز قضا نہیں کی۔ اب میں اس کو تمہارے سپرد کرتی ہوں۔ اتنا خیال رکھنا کہ اس کی نماز قضا نہ ہو، ورنہ میں بری الذمہ ہوں۔ اس کا وبال اس پر ہو گا یا تمہاری گردن پر۔ جب میں نئی نئی بیاہ کر آئی تو شرم کے مارے اٹھتی میں نہ تھی، چلتی پھرتی میں نہ تھی۔ تمام کنبے کی عورتیں ایک دم کو مجھ سے الگ نہ ہوتی تھیں کہ میں تنہائی پا کر دو رکعت نماز پڑھ لیتی اور باوجودے کہ میری ماں نے چلتے چلتے اماں جان سے کہہ دیا تھا مگر انہوں نے بھی کچھ خیال نہ کیا۔ بس اسی دن سے میری نماز جانی شروع ہوئی۔ دو چار دن تو دل کو افسوس رہا۔ ہوتے ہوتے عادت چھوٹ گئی اور ایسی شامت کی مار آئی کہ پھر مجھ کو نماز نہ پڑھنے کا رنج بھی نہیں ہوتا تھا۔ غرض دنیا کی چند روزہ شرم نے مجھ کو پکی بے دین بنا دیا۔ اور میری وہی کہاوت ہوئی کہ جس نے کی شرم اس کے پھوٹے کرم۔ لیکن چوں کہ نماز کی خوبی بچپن سے ذہن میں بیٹھ چکی تھی، اب بھی اتنا تھا کہ جس دن سر دھویا، دو چار وقت کی نماز ضرور پڑھ لیا کرتی تھی۔ یا کوئی بال بچہ بیمار ہوا تو نماز پڑھنے لگی۔ جب خدا نے اس ترد د کو رفع کر دیا، پھر چھوڑ دی۔ اب البتہ میں نے مصمم عہد کر لیا ہے کہ برابر نماز پڑھوں گی۔ خدا میرے قول کو پورا کرے۔
نصوح : آمین، ثم آمین۔
اس کے بعد فہمیدہ نے نیچے اتر کر فوراً صالحہ کے واسطے ڈولی بھیجی اور لونڈیوں سے کہہ دیا کہ کہار سواری لے آئیں تو چپ کے سے مجھ کو خبر کر دینا۔
ڈپٹی نذیر احمد