اردو غزلیاتشعر و شاعریمیر تقی میر

یار ہے میر کا مگر گل سا

میر تقی میر کی ایک غزل

یار ہے میر کا مگر گل سا
کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا

یاں کوئی اپنی جان دو دشوار
واں وہی ہے سو ہے تساہل سا

دود دل کو ہمارے ٹک دیکھو
یہ بھی پر پیچ اب ہے کاکل سا

شوق واں اس کے لمبے بالوں کا
یاں چلا جائے ہے تسلسل سا

کب تھی جرأت رقیب کی اتنی
تم نے بھی کچھ کیا تغافل سا

اک نگہ ایک چشمک ایک سخن
اس میں بھی تم کو ہے تامل سا

بارے مستوں نے ہوشیاری کی
دے کے کچھ محتسب کا منھ جھلسا

شرم آتی ہے پہنچتے اودھر
خط ہوا شوق سے ترسل سا

ٹوٹی زنجیر پاے میر مگر
رات سنتے رہے ہیں ہم غل سا

میر تقی میر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button