مری سرشت نہیں ہے گناہ کا پتھّر
بس ایک جھوٹ بنا میری راہ کا پتھّر
زمانے بھر کے بھلے کام بھی بچاتے نہیں
بہت ہی زور سے لگتا ہے آہ کا پتھّر
بس ایسے ہی کبھی دو نام لکھّے تھے مَیں نے
تمام عمر سنبھالا نباہ کا پتھّر
گلہ نہیں ہے کسی غیر کے مظالم کا
غلط تھا دوست تمھاری نگاہ کا پتھّر
بفیضِ بخت ہُوں دنیائے نامراد میں یوں
ہَو جیسے دشتِ بے آب و گیاہ کا پتھّر
سمیرؔ جب سے مرے سر پہ سایہ ماں کا نہیں
سرکتا جائے ہے در سے پناہ کا پتھّر
سمیرؔ شمس