- Advertisement -

دل مرا مضطرب نہایت ہے

میر تقی میر کی ایک غزل

دل مرا مضطرب نہایت ہے
رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے

منھ ادھر کر کبھو نہ وہ سویا
کیا دعا شب کی بے سرایت ہے

اب وہ مہ اور ایک مہ سے ملا
چند در چند یہ حکایت ہے

ہر طرف بحث تجھ سے ہے اے عشق
شکر تیرا تری شکایت ہے

ایسے رنج و عنا میں اودھر سے
پرسش حال بھی عنایت ہے

دہر کا ہو گلہ کہ شکوئہ چرخ
اس ستمگر ہی سے کنایت ہے

مت مراعات غیر رکھ منظور
میرے حق میں یہی رعایت ہے

عاشق اب بڑھ گئے ہمیں چھانٹو
اس میں سرکار کی کفایت ہے

کب ملے میر ملک داروں سے
وہ گداے شہ ولایت ہے

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل