- Advertisement -

انعام یافتہ بھی خطاوار بھی ہوا

ایک اردو غزل از بلال اسعد

انعام یافتہ بھی خطاوار بھی ہوا
اقرار کی طرح مرا انکار بھی ہوا

پتھر ضرور ہو گیا کارِ طلسم سے
اندر ہی اندر آئنہ مسمار بھی ہوا

وہ خواب جن کو آپ ذخیرہ کیے رہے
کیا کوئی شخص ان کا خریدار بھی ہوا

یہ اور بات دیکھنے والا کوئی نہ تھا
اک نقش ورنہ دل پہ نمودار بھی ہوا

جلتے ہوئے بدن پہ محبت کا سایہ تھا
یعنی خزاں بھی آئی ثمر بار بھی ہوا

میرے وجود کا مجھے ادراک ہونے تک
پرشور بھی رہا میں پراسرار بھی ہوا

سینہ سِپر رہا میں حقیقت کے سامنے
ہر چند خواب مجھ پہ گراں بار بھی ہوا

اسعد میں نرم خو بھی تھا برہم مزاج بھی
در بھی ہوا کبھی،کبھی دیوار بھی ہوا

بلال اسعد

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
سمیر شمس کی اردو غزل