اردو نظمستیا پال آنندشعر و شاعری

شہپر

ستیا پال آنند کی ایک اردو نظم

شہپر

(گلزارؔ کے لیے)

اس کو خود بھی تو کچھ معلوم نہ تھا
لوگ یہ بات سمجھتے کیسے؟
پرِ پروا ز ابھی نازک تھے
صغر سن طفل تھا
ریعانِ بلوغت سے بہت قبل مگر
اونچا اڑنے کے لیے
بال و پر تولتے رہنا ہی تھی عادت اس کی
اور پھر ایک دن ایسا ہی ہوا

جیسے شہباز کا ننھا بچہ
اونچی چوٹی پہ کہیں بیٹھا ہوا
یک بیک جست بھرے
اور افلاک کی لا سمت بلندی میں کہیں
دور تک اڑتے ہوئے
آنکھ سے اوجھل ہو جائے….
اس نے پر کھول کر اک جست بھری
اور اڑتا ہی گیا!

اس کو پہلے تو یہ معلوم نہ تھا
زندگی بھر کی مگر اونچی اڑانوں کے بعد
اس کو احساس ہے اب
اس کے شہپر کی بُنت کاری میں
بالِ جبریل بھی شامل تھا کہیں!

ستیا پال آنند

سائٹ ایڈمن

’’سلام اردو ‘‘،ادب ،معاشرت اور مذہب کے حوالے سے ایک بہترین ویب پیج ہے ،جہاں آپ کو کلاسک سے لے جدیدادب کا اعلیٰ ترین انتخاب پڑھنے کو ملے گا ،ساتھ ہی خصوصی گوشے اور ادبی تقریبات سے لے کر تحقیق وتنقید،تبصرے اور تجزیے کا عمیق مطالعہ ملے گا ۔ جہاں معاشرتی مسائل کو لے کر سنجیدہ گفتگو ملے گی ۔ جہاں بِنا کسی مسلکی تعصب اور فرقہ وارنہ کج بحثی کے بجائے علمی سطح پر مذہبی تجزیوں سے بہترین رہنمائی حاصل ہوگی ۔ تو آئیے اپنی تخلیقات سے سلام اردوکے ویب پیج کوسجائیے اور معاشرے میں پھیلی بے چینی اور انتشار کو دورکیجیے کہ معاشرے کو جہالت کی تاریکی سے نکالنا ہی سب سے افضل ترین جہاد ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button