کوئی شعلہ نُما ہونے لگا ہے
سو میرا دل نیا ہونے لگا ہے
وہ جس کو دشت نے لکھا ہے دریا
وہ تن میری قبا ہونے لگا ہے
تری یادوں نے جو روشن کیا تھا
دِیا وہ سبز سا ہونے لگا ہے
الگ ہی آسماں پھیلا ہے مجھ پر
جو نیلے سے سِوا ہونے لگا ہے
سخن آباد کرتا ہجر اُس کا
سخن سے ماورا ہونے لگا ہے
یہ دل اک کھیل میں برباد ہو کر
محبت آشنا ہونے لگا ہے
سید کامی شاہ