آپ کا سلاماختصاریئےاردو تحاریرانور علی

آج کا دجالی دور

ایک اردو تحریر از انور علی

میں بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ یہ دنیا طبقاتی فرق، نسلی نفرتوں اور خودغرضی سے بھری ہوئی ہے۔ ہر انسان صرف اپنے مفاد کے لیے جیتا ہے۔ انسانیت، اخلاص اور سچائی کی قدریں روز بروز ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ لوگ اتنے مصروف ہو گئے ہیں کہ حق اور باطل میں فرق کرنا بھول چکے ہیں۔ میں بچپن ہی سے ان سب چیزوں سے بیزار تھا، کیونکہ میرے دل کی آواز ہمیشہ یہ کہتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو برابر پیدا کیا ہے، تو پھر ہمارے درمیان تفریق کیوں؟ میں نے جب تاریخ کا مطالعہ کیا، عظیم لوگوں کے قصے سنے اور اپنی عملی زندگی میں بار بار یہ مشاہدہ کیا کہ کامیابی اور برکت صرف اُن خاندانوں، قوموں یا ملکوں کو نصیب ہوتی ہے جہاں اتحاد، قربانی اور دیانتداری پائی جاتی ہے۔جب میں نے 2021 میں علامہ اقبال کا گہرا مطالعہ شروع کیا، تو یوں لگا جیسے میری سوچ کو نئی پرواز مل گئی ہو۔ اقبال کا پیغام تو میرے دل کی زبان تھا۔ اقبال فرماتے ہیں:”نہ افغانی، نہ ایرانی، نہ تُرکی، نہ عربی،مسلمان ہم ہیں، وطن ہے سارا جہاں ہمارا” یہ بات میری رگوں میں اتر گئی۔ میں سمجھ گیا کہ اسلام کا اصل جوہر وحدت میں ہے، اور یہی وحدت وہ طاقت ہے جو مسلمانوں کو دوبارہ عروج دے سکتی ہے۔ میں فطرتاً INFJ مزاج رکھتا ہوں، اور میرے نزدیک اتحاد میرا پہلا خواب اور ذمہ داری ہے۔ اقبال کا خواب ایک ایسی امت کا تھا جو روحانیت، علم، بہادری اور اللہ کی مدد سے دجالی نظام کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو۔ آج کے دور میں، جہاں فتنوں، فسادوں اور مصنوعی بحرانوں کے ذریعے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی سازش یہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر، انہیں فلسطین، کشمیر اور دیگر مظلوموں کی حمایت سے دور کر دیا جائے۔ پاکستان جیسے ملک، جو نیوکلیئر طاقت کا حامل اور مسلمانوں کا مضبوط قلعہ سمجھا جاتا ہے، کو اندر سے کمزور کرنے کے لیے نفرتوں کا زہر پھیلایا جا رہا ہے، سڑکیں بند کی جا رہی ہیں، عوام کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے اور ایک منصوبہ بندی کے تحت ملک کو انتشار کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ لیکن میں دل سے یقین رکھتا ہوں کہ جو تبدیلی آنی ہے، وہ اچانک آئے گی۔ نہ وہ حکمران لائیں گے، نہ سیاسی جماعتیں، نہ دھرنے، نہ احتجاج۔ وہ تبدیلی صرف ان لوگوں کے ذریعے آئے گی جو اللہ سے جڑے ہوں گے، روحانیت سے وابستہ ہوں گے، اور سچ کے پیغامبر ہوں گے۔جیسے ظلم کے اندھیروں میں حضرت موسیٰؑ آئے، جیسے جہالت کے اندھیروں میں رسول اللہ ﷺ کی بعثت ہوئی، جیسے غلامی کے دور میں صلاح الدین ایوبی ابھرے، اسی طرح اب بھی اللہ کی مدد سے ایک نیا دور آئے گا۔ ایسا دور جس میں قوموں کی سرحدوں سے بالاتر ہو کر سوچا جائے گا اور خالص ایمان کے ساتھ نیا نظام قائم ہوگا۔میں پختہ یقین رکھتا ہوں کہ وہ وقت قریب ہے۔ مگر اس کے لیے سب سے پہلے خود کو سنوارنا ہوگا، پھر اپنے خاندان کو، پھر اپنے شہر کو اور پھر پوری دنیا کو۔ یہ تبدیلی علم، اتحاد، دیانتداری، بہادری اور اللہ سے سچے تعلق کے ذریعے آئے گی۔میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر اللہ کی مدد حاصل ہو جائے تو دجالی نظام کا خاتمہ ممکن ہے، اور یہ تبدیلی انشاءاللہ ضرور آئے گی، اور میں اس تبدیلی کا حصہ بننے کی بھرپور کوشش کروں گا۔

انور علی

انور علی

انور علی — عزم اور خدمت کا سفر انور علی کا تعلق لاڑکانہ کے ایک چھوٹے سے گاؤں، خیر محمد آریجا تحصیل باقرانی سے ہے۔ بچپن سے ہی تعلیم کے لیے جدوجہد کی، جہاں وسائل کی کمی اور معاشرتی ناانصافیاں تھیں۔ علامہ اقبال کے فکر اور خودی کے تصور نے انہیں زندگی کا نیا مقصد دیا۔ آج، انور علی اپنے وسائل سے ایک تعلیمی فاؤنڈیشن چلا رہے ہیں، جو 275 غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کر رہی ہے۔ ان کا خواب ہے کہ یہ بچے معاشرے کے قابل اور ذمہ دار فرد بنیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا اصل مقصد دوسروں کے لیے جینا ہے، اور انہوں نے اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button