اب جوش بھی نہیں ہے، یہ دریا اداس ہے
اک شخص جو گیا تو یہ قریہ اداس ہے
یا میرے چہرے پر ہی اداسی ہے چھا گئی
یا آج میری طرح یہ شیشا اداس ہے
کیسے بتاؤں تیرے چلے جانے سے اداس
میں ہی نہیں ہوں شہر بھی سارا اداس ہے
اس ہجر سے نڈھال اکیلا نہیں ہوں میں
گر سچ کہوں تو تیرا بھی چہرا اداس ہے
مجھ سے نہ پوچھ حالتِ دل میری آج کہ
کیسے بتاؤں حال میں ،یارا، اداس ہے
یا خشک ہونے والا ہے دریائے موج خیز
یا پھر کسی وجہ سے کنارا اداس ہے
ظاہر ہے حال میرا نہیں جانتا ہے تو
غمگین دل مرا ہے کہ تیرا اداس ہے؟
کچھ دن سے کوئی آیا نہیں دل میں میرے تو
تنہائی کے سبب مرا صحرا اداس ہے
پھیلے ہے غم کے مارے یہ بھی سامنے مرے
میری طرح سے میرا یہ سایا اداس ہے
دن، رات، زندگی ، دلِ بے جان اور میں
میں کیا کہوں جلال کہ کیا کیا اداس ہے
محمد حذیفہ جلال