مسیحا
بچپن سےاُس کے ذہن میں یہ بات کسی نے بٹھادی کہ تم نے پڑھ لکھ کرڈاکٹر بننا ہے کیونکہ انسانیت کی خدمت کا بہترین ذریعہ ڈاکٹری ہی ہے ۔ڈاکٹر مسیحا ہوتا ہے دکھی انسانیت کی خدمت کرتا ہے بیماروں کو شِفایاب کرکےڈھیروں دعاٸیں سمیٹتا ہے۔ایف ایس سی میں اس نے امتیازی نمبر حاصل کیے۔کنگ ایڈورڈمیں اسکا داخلہ ہوگیا۔دن رات اُس نےمحنت کی کیونکہ اُس کے ذہن پر ایک ہی بات سوار تھی۔انسانیت کی خدمت۔پلک جھپکنے میں پانچ سال گزر گٸےاور وہ ایم بی بی ایس بن کر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ہاٶس جاب کے لیے تعینات ہو گیا۔ہسپتال میں دن رات مریضوں کا رش لگارہتا تھا۔وہ اپنے مقررہ اوقات میں مریضوں کامعاٸنہ کرتا۔دواٸیاں لکھ کردیتا۔کچھ ہسپتال سےبھی ڈسپینس کروادیتا۔پھر وہ راٸل کالج آف فزیشن اینڈ سرجنز برطانیہ سے ایف سی پی ایس کرنےبرطانیہ چلا گیا۔
واپسی پراُسے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں ڈپٹی ایم ایس تعینات کردیا گیا۔ایک دن وہ حسبِ معمول مریض کامعاٸنہ کررہاتھا کہ اجازت لیکرایک انیس بیس سالہ نوجوان اُس کے آفس میں داخل ہوا جسکے ہاتھ میں ایک سفری بریف کیس تھا۔اس نے بریف کیس کھولا اور دواٸیوں کی ایک کمپنی کے مختلف نمونےمیز پربکھیر کر انکی کمپوزیشن بیان کرنا شروع کردی۔نوجوان کی گفتگوکافی سحرانگیز تھی جس نےڈاکٹر کو ہپناٹاٸز کرکے رکھ دیا۔گفتگو ختم ہوٸی تو ڈاکٹر صاحب نوجوان کو اپنی ادویات ہسپتال کےقریبی چند میڈیکل سٹورزپر رکھنےکا کہ رہے تھے۔اگلے دن ڈاکٹر صاحب نے معاٸنہ کے لیےآنےوالےتمام مریضوں کووہی دواٸی پریسکراٸب کی۔اُسکی کی کارکردگی پرکمپنی نے غیرمعمولی اطمینان کااظہار کیا۔اگلےتین ماہ میں اُس نےکمپنی کوپورے ضلع میں سب سے زیادہ بزنس دیا۔الرجی سے لے کر ڈاٸریا اور نزلہ زکام سے لے کر فالج و لقوہ تک کے لیے وہ ہر مریض کو وہ دو دو تین تین قسم کی اینٹی باٸیوٹک اور ٹرانکولاٸیزر الگ سے تجویز کرتا۔مختلف ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اُس کے کمیشن ریٹس بڑھانےشروع کردیے۔میں نے دو ایک بار اُس کی توجہ اُس عہدوپیمان کی طرف مبذول کروانے کی کوشش کی جو اُس نے ڈاکٹر بننے سے پہلے انسانیت کی خدمت کے باندھے تھے تواُس نے اپنے تعلیمی اخراجات کا تخمینہ لگا کر مجھے خاموش کرادیا۔میں نے اُسے یاددلایا کہ تم نے مسیحاٸی کا وعدہ کیا تھا اپنا وعدہ پورا کرو۔
ان العہدکان مسٸولہ۔وہ بھرپوردلیل دیتا کہ دیکھو! دکھی لوگ میرےپاس آتے ہیں اور خوش خرم جاتےہیں اگراُنکے چارپیسے خرچ ہوجاتے ہیں توکون سی بڑی بات ہے کسی دوسرے ڈاکٹر کو بھی تو اُنہوں نےدینے تھے نا۔اُسکی شہرت چہاردانگ عالم میں پھیل گٸی۔میٹر چلتا رہا۔مریض بھگتتےرہے ۔ملٹی نیشنل کمپنیاں بزنس سمیٹتی رہیں۔غریب،مجبوراور مقہور انسانیت مسیحاٸی کے نام پہ لُٹتی رہی۔ڈاکٹر صاحب کو ورلڈٹور کےلی ٹکٹ بمعہ ریزیڈینشنل اخراجات کے ملتے رہے۔دیکھتے ہی دیکھتےڈاکٹر صاحب کا اپناالگ ویل فرنیشڈ ہسپتال قاٸم ہوگیا۔ہسپتال میں کمپنیوں نے الگ الگ شعبے کی مشینری نصب کردی۔ڈاکٹرصاحب پہلے سے بھی زیادہ تندہی سے انسانیت کی خدمت میں مصروف ہوگۓ۔سرکاری ہسپتال میں اُن کاعہدہ ایم ایس ہوگیا۔کافی عرصہ بعدایک دن میں اپنےکسی رشتہ دارکی عیادت کےلیے ہسپتال میں داخل ہواتووہ اپنی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے۔
اچانک اُنہوں نے مجھے دیکھ لیا۔وہ رُکے۔رسمی علیک سلیک ہوٸی۔پوچھنےلگے کیسے آنا ہوا؟ میں نے بتایا کسی مریض کو دیکھنے آیا ہوں۔اُنہوں نے وارڈانچاج کو فون کرکے میرے متعلق بتادیا۔اِس مختصر عرصہ میں میں نے مسیحا کے چہرےکو غورسے دیکھ لیاتھا آنکھوں کےنیچےسوجھی اور لٹکی ہوٸی تھیلیاں اس بات کی گواہی دےرہی تھیں کہ گردے متاثّر ہوچکے ہیں۔وہ میری اُن سے آخری ملاقات تھی۔چھ مہینے بعد سُننےمیں آیا کہ ہفتے میں دوبار ڈاٸیلسسز ہورہا ہے۔کچھ دن پہلے مجھے ایک دوست نے بتایا ڈیڑھ سال پہلے وہ گردے فیل ہوجانے کی وجہ سے فوت ہوگٸے تھے۔چار کنال پر مشتمل بہترین فرنیشڈ ہسپتال بھی اِدھر ہی ہے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں دن رات اربوں کھربوں کا بزنس بھی سمیٹ رہی ہیں۔غریب،مجبورومقہور، دکھوں اور بیماریوں میں جھکڑی ہوٸی،بلکتی ہوٸی،روتی اور پیٹتی ہوٸی انسانیت بھی اِدھر ہی ہے مگر مسیحانہیں ہے۔مسیحاجاچکا ہے۔اپنی مسیحاٸی دکھا کر۔
ڈاکٹر محمد الیاس عاجز