کرم ہے ہم پہ تیری اک نظر بھی
مگر یوں زندگی ہو گی بسر بھی
جو لے جاتی ہیں ہاتھوں پر سفینہ
انہی موجوں سے بنتے ہیں بھنور بھی
عنایت ایک تہمت بن نہ جائے
نظر کے ساتھ جھک جائے نہ سر بھی
ترے نغموں میں بھی کھویا ہوا ہوں
لگے ہیں کان دل کے شور پر بھی
چلا ہاتھوں سے دامان تمنا
ذرا اے سیل رنگ و بو ٹھہر بھی
لہو میں تر ہیں کا نٹوں کی زبانیں
کسی کو ہے گلستاں کی خبر بھی
لو اب تو دل کے سناٹے میں باقیؔ
ہوا شامل سکوت بام و در بھی
باقی صدیقی