- Advertisement -

آہ

چشمہ فاروقی کا ایک اردو افسانہ

آہ 

مغرب کی نماز پڑھ کر ہم باپ بیٹی چائے سے فارغ ہو چکے تھے – مگر امی اور خالہ ابھی تک ندارد تھیں- انتظار کرتے کرتے تھکن سی ہونے لگی تو اباجی نے کہا بیٹی حنا اپنی ماں کے بارے میں معلوم تو کرو کہاں ہیں – کب آئے گی – ابو کہاں معلوم کروں۔ حنا نے اکتا کر جواب دیا – امی صبح ناشتے کے بعد جو نکلیں اب یہ وقت آگیا – ہاں بیٹا تمہاری ماں دھن کی پکی ہے – لڑکیاں دیکھنے میں لگی ہوگی – بہو جو چاہیے – جی ابو – مگر ایک بات اچھی نہیں لگتی کہ امی ہر لڑکی میں کوئی نہ کوئی عیب نکال دیتی ہیں – بیٹا اس کا کوئی علاج نہیں ہے وہ بہت حسن پرست عورت ہے وہ میرے ہی خاندان کی ہے میں اسے اچھی طرح جانتا ہوں وہ کبھی کسی ایسے رکشہ میں نہیں بیٹھتی تھی جس کا چلانے والا کالا یا بھدی شکل کاہو مجھے معلوم ہے کہ اس نے مجھے کیسے قبول کیا ہوگا – باپ بیٹی کی بات چیت کا سلسلہ تب رکا جب دروازے پر صابرہ خالہ کی آواز سنائی دی حنا بیٹے جلدی سے چائے بنا دو اور لگے ہاتھوں پانی بھی پلا دو – ہم دونوں کافی تھک گئے ہیں امی بھی ساتھ میں تھکی ہوئی اندر آ رہی تھیں – اے صابرہ سنو اب کوئی ڈھنگ طریقہ کی لڑکی دیکھ کرھی مجھے لے چلنا سارا دن لگ گیا تھکن الگ ہوگی اور ہاتھ کچھ نہیں آیا –
آپا تمہیں تو کوئی لڑکی پسند ہی نہیں آتی میں کیا کروں – خیر لڑکیوں کا کوئی اکال تھوڑے نہ پڑ گیا ہے – اللہ ہمارے بچے کو سلامت رکھے بالکل اس کے حساب سے لڑکی اور ڈھونڈ لونگی – سن لو صابرہ اب اچھی جگہ اور اچھی لڑکی دیکھ کر ہی میرے پاس آنا – تمہارا انعام اور جوڑا پکا ہے اتنا انعام دوں گی کہ خوش ہو جاؤ گی اور سوچو گی کہ کس سے واسطہ پڑا ہے خالہ نے چائے پی کر نقاب اٹھایا اور دعائیں دیتی ہوئی رخصت ہو گئیں –
ابو امی سے مخاطب ہوئے ارے کیوں پریشان ہوتی ہو اپنے خالد صاحب کی لڑکی ہے – پڑوسی بھی ہے پڑھی لکھی لڑکی ہے کرلیجئے – امی کا پارہ تو سات وے آسمان پر چڑھ گیا جب کچھ سمجھ میں نہ آیا کرے تو بیچ میں دخل دینے کی کوشش بھی مت کیا کریں اتنی پڑھی لکھی لڑکی مجھے نہیں چاہیے پڑھائی کر کر کے چہرے کا رنگ روپ سب جل گیا ہے – رنگ کی سانولی ہے تو کیا ہوا دل دماغ تو تعلیم کی روشنی سے روشن اور منور ہوگا – اب آپ چپ بھی رہو میرے گھر میں کیا کم روشنی ہے جو اور لے آؤں – اباجی کی رنگت سانولی تھی اور امی کا رنگ بہت اجلا تھا —– چاند کا ٹکڑا لاؤنگی جیسے میرا بچہ ہے – ایمان صاحب نے خاموشی میں ہں عافیت جانی کیوں کہ دوبارہ بولنے کا مطلب اپنے پرخچے اڑوانا تھا – ایمان صاحب سے شادی خاندانی شرافت کی وجہ سے رفعت برداشت کر گئی لیکن کبھی وہ محبت نہ دی جو ایک شوہر کا حق ہے لیکن اللہ نے بچے ایک سے ایک خوبصورت دیکراس جذبے کی تسکین کردی تھی جو ک پیدائشی ان کے اندر تھا – بڑا بیٹا پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن گیا اور ایک اسپتال میں مقرر ہوگیا تو اس کے لئے لڑکیوں کی تلاش شروع ہوئی – تینوں بچوں میں چھ چھ سال کا فرق تھا اس لئے باقی دونوں بہن بھائیوں کی کوئی جلدی نہیں تھی – سردی کی چھٹیاں چل رہی تھی اتوار بھی تھا اس لئے سب گھر پر ہی تھے -تب ہی صابرہ خالہ ۂانپتی کا نپتی آ پہنچی – سلام دعا کے بعد پان کھانے بیٹھ گئیں پھر بولی – دلہن ایسی لڑکی کا پتا لائی ہوں کہ دیکھو گی تو حیران رہ جاؤ گی – ‏ اس دنیا کی مخلوق نہیں لگے گی – میں نے ٹوکا کیا پری دیکھ کر آئیں ہیں – صابرہ خالہ بولی ارے پری بھی کیا چیز ہے – –
میں نے اس لیے کہا کہ اگر اس دنیا کی مخلوق نہیں ہے تو ہماری دنیا میں عجیب لگے گی – اے حنا بیٹی تم تو بات پکڑ لیتی ہوں – میں تو یہ کہنے آئی تھی کہ شام کا وقت لیا ہے – – میں شام کو آؤں گی دونوں تیار رہنا لڑکی دیکھنے چلیں گے تم بھی چلنا بیٹا –
بس خالہ مجھے تو اس دیکھنے دکھانے سےدور رکھیے مجھے تو بہت برا لگتا ہے جب کسی لڑکی کو دیکھ کر انکار کرنا پڑتا ہے – اس بار ایسا نہیں ہوگا – خاندانی خوبصورتی ان کے یہاں بکھری پڑی ہے – ایک سے بڑھ کر ایک حسین ہیں –
اچھا صابرا خاندان بھی خوبصورت ہے – یہ اچھا ہوا اگر سارا خاندان خوبصورت ہوگا تو بچے بھی ان کے خوبصورت ہی ہونگے –
امی ایسا نہیں ہے میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ ایک بار ایک پارٹی میں مس ورلڈ موجود تھی اور اسی پارٹی میں برناڈ شاہ بھی تھے جو کہ بہت معمولی شکل و صورت کے تھے مس ورلڈ نے ان سے کہا کہ سر اگر ہم شادی کرلیں تو ہونے والے بچے میری طرح خوبصورت اور آپ کی طرح عقلمند ہونگے – برناڈ شاہ بولے وہ تو ٹھیک ہے مگر کہیں اس کا الٹا ہوگیا تو کیا ہوگا – شکل مجھ پر چلی گئی اور عقل آپ پر چلی گئی –
امی ایک دم بولی اچھا سنا چکی اب چپ ہو جاؤ – تم لوگ مجھ پر کیوں چلے گئے اپنے ابا پر کیوں نہیں گئے – امی یہ سب سن کر ‏ پیچ تاب کھانے لگتی تھیں – ابو نے مجھے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تاکہ ماملہ دب جائیں – امی نے تو شام کی تیاری ابھی سے شروع کردی تھی – بہترین جوڑا پریس کے لئے نکالا گیا بالوں میں مہندی لگائی گئی کہ ہونے والی بہو کو ان کا کوئی بال نہ نظر آجائے -سونے کی چوڑیاں پہننے کی غرض سے نکالی گئی – مجھے بھی تیار ہونے کا حکم ملا -, اور پھر شام ہوتے ہی خالہ تشریف کا ٹوکرا لے آئین اور ہم تینوں لڑکی دیکھنے نکل پڑے – ان کے گھر پہنچ کر بڑا سا گیٹ نظر آیا – جس پر دونوں طرف پھولوں کی بیل چڑھی ہوئی تھی – ملازمہ نے دروازہ کھولا اور اندر بلایا خود اپنی مالکن کو کہنے چلی گئی – تب امی بولیں اچھے شریف اور عزت دار لوگ ہیں – گھر سے امی نے انکی شرافت کا اندازہ بھی لگا لیا – خالہ کیسے چوک جاتی – فورا بولی کسی ایسی ویسی جگہ پر تھوڑے ہی لے جاتی – بہت بڑے آدمی ہیں – ہم لوگ جاکر ان کے بہترین صوفے میں دھنس چکے تھے تبھی دروازے سے ایک محترمہ تشریف لائیں – لمبی چوڑی بارعب شخصیت لال بال سرخ و سفید رنگت نیلی آنکھیں – خالہ نے بتایا یہ لڑکی کی ماں ہیں – ماں تو امی کو ایک نظر میں پسند آگئیں ۔ اور امی نے فورا ہی آپاکا لقب دے ڈالا – سلام دعا کے بعض وہ بولی میں تو سوچ رہی تھی کہ آپ لوگ رات سے پہلے کیا آئیں گے – کیونکہ آج کل کے لوگوں نے وقت پر کہیں جانے کی قسم جو کھا لی ہے ہر جگہ رات ہونے پر ہی پہنچتے ہیں – نہیں بہن – میں اور میرے بچے وقت کے بہت پابند ہیں کسی کو انتظار کرانا ویسے بھی مجھے پسند نہیں – اور پھر صابرہ نے اتنی تعریف کی تھی کہ میں تو وقت سے پہلے ہی آنا چاہتی تھی اور جو کچھ وقت لگا صابرہ کے انتظار میں لگا – تب میں نے کہا آنٹی جلدی سے ہمارا بھی انتظار ختم کرادیجئے – بولی ہاں ہاں بیٹا – ابھی بلاتی ہوں – – – – – – – – – – – تبھی ایک ملازمہ چائے ناشتہ لے ای – اس کے پیچھے پیچھے ایک محترمہ اور ان کے پیچھے انکی بیٹی بھی وارد ہوئی – بیٹی واقعی بہت خوبصورت تھی – امی تو پلکیں جھپکانا ہی بھول گئیں – مجھے بھی لڑکی اچھی لگی بالکل بھائی جان کے عین مطابق تھی – امی نے پیار کرکے فورا پرس کھول کر ثمر کے ہاتھ میں کچھ روپے رکھ دیے اور بولیں… آپا آج سے یہ بچی میری ہوئی – ان کی والدہ بولیں آپ جلدی کر رہی ہیں – آپا آپ بالکل فکر نہ کریں آپ جمعہ کو ہمارے گھر تشریف لائیں میرا بیٹا بھی انشاءاللہ آپ کو اسی طرح پسند آئے گا – ہاں اب تو ہم اپنی بیٹی آپ کا بیٹا دیکھنے کے بعد ہیں دینے کا فیصلہ کریں گے ابھی آپ کوئی پکا نہ سمجھیں – پھر ہم وہاں سے رخصت ہو کر گھر آگئے – : امی کے تو پاؤں زمین پر ہی نہیں پڑ رہے تھے – ان سے انکی خوشی سنبھالے نہیں سنبھل رہی تھی – ابو نے دیکھا اور کہا کیا معرکہ سر کر آی ہو – امی کے بولنے سے پہلے ہی میں بول پڑی۔ جی ابو امی کی مرضی کے مطابق لڑکی مل گئی ہے اور واقعی بہت پیاری ہے وہ لوگ بھائی جان کو دیکھنے جمعہ کو آئینگے – ابو نے مذاق کیا ارے ماں کو دیکھنے کے بعد بیٹے کو دیکھنے کی ضرورت تھی کیا – امی اس وقت اپنی خوشی میں ابو کی بات ان سنی کر گئیں – ورنہ ابو کو سنانے میں امی کوئی موقع جانے نہیں دیتی تھیں – جمعہ کو سارا دن گہماگہمی کا ماحول تھا امی نے سارا گھر صاف کرایا اور بھائی جان کو تیار رہنے کا حکم صادر کردیا – چھ بجے کے قریب لڑکی کے والدین ایک بھائی اور دو بہنیں آئیں – سبھی بہت خوبصورت تھے امی تو انہیں دیکھ کر وارے نیارے جا رہی تھی – تبھی بھائی جان اندر تشریف لائے بھائی جان نے سب سے مصافحہ کیا اور بیٹھ گئے – لڑکی کے بھائی نے دو چار باتیں کیں – بھائی جان بھی ان کے معیار پر پورے اترے جاتے وقت ان کے والد بھائی جان کو ہزار روپے دیے گئے –
ان کے جانے کے بعد ابو نے کہا اب کیا ارادہ ہے
امی بولیں اب سوچتی ہوں عید کے تیسرے چوتھے روز نکاح کر کے لے آؤں – ابو بولے اتنی جلدی کیا ہے ساری تیاری کرنی ہے – آمی تنک کر بولیں تیاری مجھے کرنی ہے یاآپ کو – میں نے اتنا انتظار کیا اور پریشان ہوئی اب اور نہیں – بس عید کے فوراً بعد – اور یہی میرا آخری فیصلہ ہے ابو بولے جیسا تم ٹھیک سمجھو – شبرات کے بعد ہم ان کے گھر جاکر تاریخ لے آئے:
امی نے کہا رمضان میں تو کام ہوتا ہے باہر کا کام ابھی نمٹانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ گھر کا کام رہ جائے تو سکون سے بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے اور امی نے صابرہ خالہ کو گھر میں رہنے کی دعوت دے ڈالی کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ میں تو ایک دو بار بازار جانے کے بعد دوبارہ جاؤ گی نہیں – امی نے سب کے منع کرنے کے باوجود اکیاون جوڑے بنائے تین سونے کی سیٹ اور ایک ڈائمنڈ کی انگوٹھی بھی خریدیں ٹیکا اور جھومر اپنا بہو کے نام کردیا تب ابو نے کہا اور بچوں کی بھی شادیاں کرنی ہیں – بیٹی کے بعد ایک بیٹا اور بھی ہے – اس کو بھی تو کچھ دوگی جب ان کا وقت آئے گا ان کا بھی کروں گی آپ فکرمند نہ ہوں-
رمضان شریف بھی تیاری میں گزر گیا – اور عید کے دوسرے دن سے ہی مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی خوب گہماگہمی تھی بہت رونق رہی بارات خوب دھوم دھام سے گئی اور سب کی دعاؤں کے ساتھ عید کا چاند ہمارے گھر میں جلوہ افروز ہو گیا ابو جی سسر بن کر بہت خوش تھے – دلہن دیکھ کر بھائی جان مسرور تھے – امی بھابی کا ایک ایک کام اپنے ہاتھ سے کرنا چاہتی تھیں رشتہ داروں نے دعائیں دیں کہ جو سکھ اپنی بہو کو دے رہی ہو خدا کرے کہ بہو بھی تمہیں خوب سکھ دے آمین امی بولیں۔ مجھے کام وغیرہ نہیں کرانا ہے بس اپنے آنگن میں خوبصورت بچے کھیلنے کے لیے چاہیے – ہماری ممانی بڑی پٹاکھا تھیں بولی باجی آپ کی طرح یا بھائی صاحب کی طرح – امی نے ان کو غصے سے گھورا تو وہاں سے وہ رفو چکر ہوگئی –
مہمانوں کی رونق ختم ہوئی اور زندگی اپنی پھر اسی راہ پر چلنے لگی – بھابی جتنی گوری تھیں دل ان کا اتنا ہی کالا تھا – امی سے نوکروں کی طرح برتاو کرتیں امی کو انکی خوبصورتی کے آگے کچھ نظر نہیں آتا تھا – امی مجھے ،چھوٹے بھائی کو اور ابو کو جھاڑ پلا دیتی تھیں مگر بھابھی کو کچھ نہیں کہتی تھیں مجھے بھی غصہ آتا اور میں کہتی کہ میں بھائی جان سے کہوں گی تو امی کہتی تم سے کیا مطلب ہے – پھر پتہ چلا کہ گھر میں نئے مہمان کی آمد ہے – امی تو نہال ہوگئیں اور بھابھی کی خدمت پر معمور ہو گئیں امی ان کو دودھ فروٹ خود دے کر آتیی ۔ انار تو ان کو اتنا کھلاتیں ک مجھے دیکھ کر الٹی ہونے لگتی میں سوچتی کیسے کھا لیتی ہیں – اور تو اور گھر میں کوئی کالی چیز نہیں لا سکتے تھے – کسی کو کالے کپڑے نہیں پہننے دیتی تھیں – پتہ نہیں اللہ کو کیا دکھانا منظور تھا یہ تو وہی جانے – وہ دن بھی آیا جب بھابی کو اسپتال میں ایڈمٹ کیا گیا – ہم سب منتظر تھے امی کے ہونٹ برابر دعاؤں میں مصروف تھے تھوڑی دیر بعد سسٹر نے بچی کی پیدائش کی خبر سنائی تو امی نے فورا اس کے ہاتھ پر 500 روپے رکھے اور خور شکرانے کے نفل پڑھنے میں لگ گئیں – میں دوڑ کر اندر پہنچی اور بچی کی جانب لپکیں تو میں دم بخود رہ گئی بچی ایک دم سیاہ تھی – نقشہ بھی زیادہ اچھا نہیں تھا مگر اپنی تھی اس لئے گود میں لے کر پیار کیا اور لٹا دیا – جیسے ہی کھڑی ہوئی دروازے کے پاس امی نظر ای میں نے سوچا امی اللہ کو آپ کا ہر انسان میں عیب عیب نکالنا اچھا نہیں لگا اس لیے اس نے یہ نیک فرشتہ آپ کو ہردم دیکھنے کے لئے دے دیا – امی بچی کو دیکھ کر فق رہ گئیں ۔ ان کے منہ سے اک آہ نکلی اور بے ہوش ہوکر گر پڑیں ۔

چشمہ فاروقی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو غزل از افروز عزیز