- Advertisement -

لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید

میر تقی میر کی ایک غزل

لڑ کے پھر آئے ڈر گئے شاید
بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید

سب پریشاں دلی میں شب گذری
بال اس کے بکھر گئے شاید

کچھ خبر ہوتی تو نہ ہوتی خبر
صوفیاں بے خبر گئے شاید

ہیں مکان و سرا و جا خالی
یار سب کوچ کر گئے شاید

آنکھ آئینہ رو چھپاتے ہیں
دل کو لے کر مکر گئے شاید

لوہو آنکھوں میں اب نہیں آتا
زخم اب دل کے بھر گئے شاید

اب کہیں جنگلوں میں ملتے نہیں
حضرت خضر مر گئے شاید

بے کلی بھی قفس میں ہے دشوار
کام سے بال و پر گئے شاید

شور بازار سے نہیں اٹھتا
رات کو میر گھر گئے شاید

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل