حکیم جی
گلی میں ہارن کی آواز پر حکیم شجاع اللہ طلے کی کلا ہ درست کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوئے۔ بیٹی نے دائیں ہاتھ میں منقش عصاء تھمایا، ان کا دوسرا ہاتھ پکڑ کر گھر کی دہلیز تک چھوڑنے آئی۔ پھر چلمن کی اوٹ سے انہیں جاتے ہوئے دیکھنے لگی ……
’’ بابا جان جلد لوٹ آئیے گا……‘‘
روزانہ جب حکیم جی، رئیس خان زمان کے ڈرائیور کا ہاتھ تھام کر مرسڈیز کی طرف بڑھتے تو یہ فقرہ ان کی سماعت سے ٹکراتا اور وہ …اچھا بیٹے… کہہ کر آگے بڑھ جاتے۔
حکیم شجاع اللہ کی حکمت اور دانائی کا شہرہ اپنے شہر میں توتھا ہی دور دراز کے قصبوں اور دیہاتوں سے بھی دن بھر لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ ایک بیٹی اور پھر بیٹے کی پیدائش کے بعد بیوی داغ مفارقت دے گئی تھیں۔ بعدازاں جوانی ہی میں ٹریفک کے ایک حادثے نے حکیم جی کی آنکھوں کی روشنی چھین لی۔ تب سے ان کے وجدان کی کئی کھڑکیاں، دروازے کھل گئے….. رفتہ رفتہ انہوں نے محسوس کیا جیسے علم و حکمت نے ان کے اندر چراغاں سا کردیا ہو……
رئیس خان زمان بھی پہلے پہل ان کی حکمت کا چرچا سن کر مریض کی حیثیت سے آئے۔ جب راہ و رسم بڑھے تو باقاعدہ آنا جانا شروع ہوگیا۔ یوں ہوتے ہوتے معمول کا آنا جانا دیرینہ رفاقت کا روپ دھار گیا۔
پندرہ منٹ کی مسافت کے بعد پرانے مگر شاہانہ طرز کی مرسڈیز رئیس خان زمان کی کوٹھی کے احاطے میں داخل ہوکر رک گئی ۔ ڈرائیور نے بائیں جانب کا پچھلا دروازہ کھولا اور حکیم جی کو سہارا دیتے ہوئے صدر دروازے تک لے آیا۔ ہارن کی آواز پر خادمہ حکیم جی کو رئیس کے کمرے تک لے جانے کے لیے آچکی تھی۔ حکیم جی خادمہ کا ہاتھ تھام کر طویل راہداری عبور کرتے ہوئے رئیس کے کمرے تک پہنچے تو سنگیں فرش پر پیتل کے سام والے عصاء کی ٹھک ٹھک سن کر رئیس خان زمان حسب معمول خود ہی اٹھ کر باہر آگئے ….
’’ آئیے حکیم صاحب آئیے ……….‘‘
’’ خان صاحب! اب آپ کی صحت کیسی ہے ؟ ‘‘ حکیم جی نے حسب معمول دریافت کیا۔ ’’ اللہ کا بڑا احسان ہے حکیم صاحب………. بھئی خادمہ ہمیں جلدی سے ٹھنڈا پلاؤ بہت پیاس لگی ہے ۔‘‘ خان صاحب نے صوفے پر آلتی پالتی جماتے ہوئے حکم دیا۔
’’ خان صاحب خیریت تو ہے آج حویلی کی راہداری کچھ خاموش سی ہے گھر میں چہل پہل محسوس نہیں ہورہی ؟‘‘ حکیم جی نے گفتگو کا آغاز کیا۔
’’ اجی حکیم صاحب کیا بتائیں سبھی گھر والے صبح سے مربعوں کی سیر کو نکلے ہیں۔ اب شاید کل ہی لوٹیں گے اور صاحبزادے مقرب خان کالج سے آکر گھر سے باہر ہی نہیں نکلے ‘‘ خان صاحب نے بتایا ۔
’’ اسی بہانے آپ بھی ہو آتے تو ذرا آب و ہوا تبدیل ہوجاتی …..‘‘
’’ اجی ہم کہاں! اب تو گھر کی چوکیداری ہی ہماری ذمہ داری ٹھہری ………. ایسے میں یہ خاندانی حقہ ہمارا ساتھی ہے یا پھر کتابیں ہمارا دل بہلاتی رہتی ہیں۔ ‘‘ خان صاحب چند یا پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے۔ خادمہ شربت کی ٹرے تپائی پر رکھ کر چلی گئی ۔
’’ حکیم صاحب کبھی ہماری سنبل بیٹی کو بھی ہمراہ لے آئیے ناں؟‘‘ خان صاحب نے شربت کا گلاس بڑھاتے ہوئے کہا۔
’’ اجی کیا بتاؤں خان صاحب کالج چھوڑنے کے بعد گھر سے ایسے جڑی ہے کہ کہیں آنے جانے کا نام ہی نہیں لیتیں…..بس ہر وقت گھر داری میں لگی رہتی ہیں ….‘‘
’’ حکیم جی ! پھر آپ نے سنبل بیٹی اور مقرب خان بیٹے کے رشتے کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟ ‘‘ خان صاحب نے شربت کا ٹھنڈا میٹھا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے پوچھا۔
’’ خان صاحب ! آپ جانتے ہیں ایک ہی تو بیٹی ہے اگر وہ بھی اپنے گھر کی ہوگئی تو میرے پاس کیا رہ جائے گا؟‘‘ حکیم جی تاسف سے بولے۔
’’ حکیم صاحب! بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں، آج نہیں تو کل اسے اپنا گھر تو بسانا ہی ہوگا ؟‘‘ رئیس نے حقیقت پسندانہ انداز میں کہا۔
سنبل کے رشتے کا ذکر چھڑتے ہی حکیم صاحب فکر کی اتھاہ گہرائیوں میں جابیٹھے۔
معمول کی اس محفل میں گھنٹوں کشتہ حبوب عنبری سے لے کر دنیا جہاں کے موضوعات اور مسائل پر گفت و شنید ہوتی مگر تان، سنبل اور مقرب خان کے رشتے پر ٹوٹتی ۔ یہ ذکر گویا حکیم شجاع اللہ کی رخصتی کا اعلان ہوتا۔ وہ کافی دیر عالم استغراق میں ہچکولے لینے کے بعد سطح آب پر آجاتے ۔ تب رئیس خان زمان کسی مردانہ تکلیف کا کوئی نیا نسخہ دریافت کر کے حکیم صاحب کی کشتی منجھدار سے باہر نکال لیتے……
چلیں خان صاحب ! سنبل بیٹی انتظار کرتی ہوگی، پتہ نہیں ولید بازار سے لوٹا ہے کہ نہیں؟ ‘‘ حکیم جی عصاء سنبھالتے ہوئے کھڑے ہوگئے……
چونکہ خان صاحب حکیم جی کی سخت گیر طبیعت سے اچھی طرح واقف تھے اس لیے زور نہ دیتے تھے اور انہیں رخصت کرنے کے لیے خادمہ کو بلایا جاتا۔
حکیم جی خادمہ کا ہاتھ تھام کر رئیس خان زمان سے رخصت ہوئے تو طویل راہداری ویسے ہی خاموش پڑتی تھی….. ابھی راہداری کا پہلا ہی موڑ مڑے ہوں گے کہ اچانک حکیم صاحب رک گئے…..
’’ بیٹی تم وہی خادمہ ہونا ں جو گھنٹہ بھر پہلے مجھے گیٹ سے اندر لے کر آئی تھیں؟ ‘‘ حکیم جی کے اچانک سوال پر خادمہ ٹھٹکی ……
’’جج………. جی ہاں………. حکیم صاحب‘‘ جواب سن کر لمحہ بھر کے لیے حکیم صاحب کی بے نور آنکھیں خادمہ کے چہرے پر ٹکی رہیں اور پھر بولے ۔
’’ ذرا مجھے رئیس کے پاس واپس لے چلو……….‘‘ حکیم صاحب جلالی لہجے میں بولے خادمہ اس اچانک تبدیلی پر بہت سٹپٹائی ، وہ حکیم صاحب کو لے کر چل تو پڑی مگر سمجھ نہ سکی کہ معاملہ کیا ہے ؟ رئیس خان زمان جو ابھی ابھی مسہری پر دراز ہوئے تھے حویلی کی گھمبیرتا میں دوبارہ حکیم صاحب کے عصاء کی لمحہ بہ لمحہ قریب آتی آواز پر چونکے اور اچھل کر کمرے سے باہر آرہے…… گویا کوئی انہونی ہوگئی ہو…….
’’ کیا ہوا خادمہ؟‘‘ رئیس نے حکیم صاحب کی بجائے خادمہ سے یوں دریافت کیا جیسے وہ کوئی خطا کر بیٹھی ہو ، خادمہ سہمی ہوئی ایک طرف کھڑکی تھی…..
’’خان صاحب! کیا یہ وہی خادمہ ہے ……جو مجھے گیٹ سے اندر لائی تھی ؟‘‘ حکیم جی نے بغیر کسی تمہید کے دریافت کیا۔ رئیس جو حکیم صاحب کی یوں مراجعت پر پہلے ہی ششدر تھے ، ان کے سوال سے پریشان ہونے لگے…..
’’آ……….جی………. جی ہاں حکیم صاحب! ہفتہ بھر پہلے ملازم رکھا تھا اسے کیا کوئی خطاء ہوگئی اس کمبخت سے ؟ ‘‘ خان صاحب تذبذب کے عالم میں بولے ۔
’’ یقین نہیں آتار ئیس ……عجب قصہ ہے ؟‘‘
’’ کیا یقین نہیں آتا حکیم صاحب؟‘‘ رئیس کی پریشانی سوا ہوتی جارہی تھی۔
’’ گھر میں اور کون کون ہے ؟‘‘ حکیم صاحب نے تفیشی افسر کے سے انداز میں پوچھا۔
’’ بتایا تو تھا کہ اہل خانہ زمینوں پر گئے ہوئے ہیں ،مقرب خان اپنے کمرے میں سورہا ہوگا اور یہ آج آپ نے پہیلیاں کیوں بجھوانا شروع کردیں حکیم صاحب آخر معاملہ کیا ہے ؟‘‘ خان صاحب کے لہجے میں سٹپٹا ہٹ نمایاں ہوتی جا رہی تھی…..
’’ خان زمان یہ جو تمہاری خادمہ ہے ناں! آتی دفعہ اس کی نبض کچھ اور تھی اور جاتی دفعہ اور……….‘‘
خادمہ بھی حیران و پریشان، حکیم صاحب کا غصے سے تمتماتا سرخ چہرا تکے جاتی تھی ….
’’کک…..کیا……خادمہ کی نبض ….بھئی حکیم صاحب………. میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟‘‘ خان صاحب زچ ہوکر بولے۔
’’ رئیس خان زمان! سب سمجھ آجائے گا۔ آپ ذرا مجھے چھوٹے رئیس کے کمرے تک تو لے چلیئے……….‘‘ خان صاحب تذبذب کے عالم میں کبھی حکیم صاحب تو کبھی خادمہ کی طرف دیکھتے ، جو بے بسی کی تصویر بنی کھڑی تھی۔ خان صاحب اسی عالم میں حکیم صاحب کا ہاتھ تھامے مقرب خان کے کمرے کی جانب روانہ ہوئے۔ خادمہ اس ہرنی کی طرح دونوں کے پیچھے چلنے لگی جیسے وہ زبردستی اس کا بچہ اٹھا کر لے جارہے ہوں۔ ایک آدھ موڑ مڑنے کے بعد بائیں جانب مقرب خان کے کمرے کا دروازہ کھٹاخ سے کھل گیا ۔ کمرے میں تاریکی تھیں۔ راہداری کی روشنی اور شور غل سے مقرب خان کچی نیند سے آنکھیں ملتے
ہوئے اٹھ بیٹھا۔
’’ حکیم صاحب ! یہ رہے چھوٹے رئیس مقرب خان! اب بتائیے یہ نبض کا کیا قصہ ہے ؟ ‘‘
’’ تحمل سے خان زمان …..ذرا دھیرج ! تمہاری یہ خادمہ جب مجھے گیٹ سے لے کر آئی تھی تو اس کی نبض پر میرا ہاتھ تھا اور جب یہ مجھے رخصت کرنے جارہی تھی، اتفاق سے تب بھی میرا ہاتھ اس کی نبض پر تھا…….. دونوں اوقات کی کیفیت مختلف ہے‘‘۔
’’ او ہو حکیم صاحب……..آخر آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘ خان صاحب چلا اٹھے ۔ ان کے پیچھے کھڑی خادمہ دروازے کی اوٹ میں جیسے پتھر ا کے رہ گئی تھی۔
’’ارے بھئی ! جب میں آیا تھا تو خادمہ کنواری تھی مگر اب نہیں رہی……میری مانو تواب جتنی جلدی ممکن ہومقرب خان کی شادی خادمہ سے کروا دو……‘‘ حکیم جی نے مشورہ دیا۔
حمید قیصر