یہی ہے دل کا تقاضا اداس رہنے دو
ضرورتوں سے زیادہ اداس رہنے دو
کبھی تو اوڑھنے دو حسرتوں کی لاشوں پر
اداسیوں کا لبادہ، اداس رہنے دو
یہ ہر گھڑی کی خوشی زہر بن نہ جائے کہیں
کبھی کبھی تو زرا سا اداس رہنے دو
لبوں پہ کیوں ہوتبسم کہ میرے سپنے سبھی
ہوئے ہیں کرچیاں ریزہ، اداس رہنے دو
کہاں کا عیش و مسرت کہاں کی لب پہ ہنسی
اجڑ گئی مری دنیا، اداس رہنے دو
احمد ابصار