نئے رواج اور روشنی کی بات ہو تو ہو
ہزار سورجوں میں چاندنی کی بات ہو تو ہو
خمارِ تلخئِ جہاں سے ابتدائے شب کریں
لہو کا جام اور مے کشی کی بات ہو تو ہو
نہیں اَسیر جذبِ عشق گردشِ طلب کا بھی
گلی گلی یقین و آگہی کی بات ہو تو ہو
چھپا ہوا ہے دل سوادِ جاں کی اوٹ میں کہیں
اے محبسو! اِدھر کشادگی کی بات ہو تو ہو
اے بے مثال ! صبحِ آتشیں کی دے نہ اَب خبر
وصال رات میں تو بے خودی کی بات ہو تو ہو
ناصر ملک