آپ کا سلاماردو تحاریراردو کالمزلبنیٰ مقبول غنیمؔ

یادیں

لبنیٰ مقبول کا اردو کالم

یادیں

یادیں زندگی کا ایک خوبصورت سرمایہ… آج کی باتیں کل کی یادیں بن جاتی ہیں اور واقعی یہ یادیں بھی کتنی منتشر ہوتی ہیں- لمحہ لمحہ پھیلی ہوئی- پل بھر میں بکھر جاتی ہیں پھر دوسرے ہی لمحے سمٹ آتی ہیں- واقعی یہ یادیں منتشر تو ہوتی ہیں لیکن جب مجتمع ہو کر زور لگاتی ہیں تو جیسے پورے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہیں- ایک کے پیچھے ایک اور یاد کو تھام لیتی ہیں خود تو بیٹھتی نہیں سکون سے اور دل میں ہلچل مچا دیتی ہیں-

کبھی کسی الھڑ دوشیزہ کی طرح اٹھلاتی پھرتی ہیں-ایک جامِ طرب بن جاتی ہیں- اک خمار بن کر چھا جاتی ہیں- اور ہونٹوں پر گنگناتی ہیں تو کبھی کسی غمگین شاعر کی اداس رباعی کی طرح آنکھ سے گرم پانی کی صورت بہہ جاتی ہیں- دل کے موسم کو یکایک پت جھڑ کا موسم بنادیتی ہیں- ہستی کو لمحہ بھر میں سوکھے خشک پتوں کی مانند اڑا دیتی ہیں-

جو کبھی ہم کسی غم یا خوشی کا حساب کرنے بیٹھیں تو سب یادیں ایک ساتھ بارش کی بوندوں کی طرح برسنا شروع ہوجاتی ہیں، کبھی گھن گھور گھٹا بن کر تو کبھی تیز بوندوں کی طرح.. بس پل بھر میں سارا وجود بھگو دیتی ہیں-

کبھی یادوں کو کہو کہ یار ذرا آہستہ! تو شانِ بے نیازی سے مسکرا کر نکل جاتی ہیں- ہاتھ پھر بھی نہیں آپاتیں اور اپنے پیچھے یادوں کا جنگل اٹھا لاتی ہیں-
یہ کبھی قابو کہاں آپاتی ہیں- یہ تو بس بھاگتی رہتی ہیں اور اگر انکو اپنا پسندیدہ ماحول مل جائے تو نکھر نکھر کر سامنے آتی ہیں اور پھر بکھر بکھر جاتی ہیں-
یادوں کو سامنے آنے کے لیے بس کوئی لمحہ چاہیے-

کوئی خوشبو کا جھونکا، کوئی مانوس سا لہجہ، کوئی اچھوتا سا لمس، کوئی مدھر سا گیت، کوئی ہوا کا لطیف سا جھونکا، یا کوئی مختصر سا جملہ…… بس یادیں تو جیسے تیار بیٹھی ہوتیں ہیں دماغ میں سوچوں کا وہ دھمال ڈالتی ہیں کہ بس

دل کی بے بسی کا یہ عالم ہوتا ہے کہ یادوں کی رفتار کا مقابلہ کر ہی نہیں پاتا بس دھڑک کر رہ جاتا ہے- تیز ذرا تیز اور تیز پھر بہت تیز!لیکن ان دھڑکنوں کو بھی لمحہ بھر میں یہ یادیں غچہ دے کر نکل جاتی ہیں- دور سے کھڑی مسکراتی ہیں دوبارہ پھر پاس نہیں آتی ہیں اور ان دھڑکنوں کی بے بسی دیکھنے لائق ہوتی ہے دھڑکنا چاہتی ہیں اسی مخصوص لے میں اسی سُر تال میں، لیکن ہاتھ میں وہ یادیں ہی نہیں ہوتیں- وہ تو کب کی آگے جا چکی ہوتی ہیں- اور ساتھ میں تازہ یادوں کا انبار بھی ساتھ لے آتی ہیں-

یادیں تو بس آکاس بیل کی طرح خود رو ہوتی ہیں جو بغیر جڑ کے کسی درخت پر پھیل کر لپٹ جاتی ہے اس طرح ہمارے پورے وجود کو اپنی گرفت سے نہیں نکلنے دیتیں-

ایک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں
ایک بیل ہے کہ لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

یادوں میں ہی سارا حسن ہے- اور اگر یادیں اچھی ہوں تو پھر ہم آگے بڑھتے ہوئے بھی ماضی کی خوبصورت یادوں سے نکل نہیں پاتے ہیں- کسی سہانی گھڑی کی یاد کسی نفیس خوشبو سے کم نہیں، یہ کسی آبنوسی دروازے سے ہمارے خیالات کے در وا کرتی ہے- اچھی بری ہر طرح کی یادیں زندگی کا بہترین سرمایہ ہیں، ذندگی انہی کے سہارے آگے چلتی ہے- زندگی کی اس چکاچوند میں جس کے پاس یادوں کا سرمایہ نہیں، اس سے زیادہ مفلس کوئی نہیں

لبنیٰ مقبول

لبنیٰ غنیم

" مختصر تعارف " لبنیٰ مقبول، کراچی سے تعلق، شاعرہ،کالم نویس، اور افسانہ نگار ہیں- بزنس منیجمنٹ، معاشیات، اور انگلش لٹریچر میں ڈگری حاصل کرچکی ہیں- درس و تدریس سے وابستگی رہی- انسانی نفسیات میں گہری دلچسپی ہے ۔ انسان میں چھپی صلاحیتوں کو دریافت کرنے کا شوق ہے ۔ اردو، انگریزی کے علاوہ فرینچ لینگویج پر بھی عبور رکھتی ہیں- چارہ گر بھی وہی کے نام سے شعری مجموعہ زیر طبع ہے اور اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر ایک بہت مقبول سلسلہ مستانہ لکھ رہی ہیں جسے جلد ناول کی شکل دینے کا ارادہ ہے-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ اشاعتیں

سلام اردو سے ​​مزید
Close
Back to top button