سبھی کو بندشِ گُفتار ہونا چاہیے تھا
ہر ایک شخص کا کردار ہونا چاہیے تھا
کوئی نہ کوئی خریدار ہونا چاہیے تھا
کہ درد کا بھی تَو بازار ہونا چاہیے تھا
کسی کے ساتھ دل اِتنی وفا نہیں اچھّی
تُجھے ذرا سا جفاکار ہونا چاہیے تھا
کسی کے عشق سے کردار سے نہیں مطلب
مری وفاؤں کا معیار ہونا چاہیے تھا
وہ جس نے عشق سے کروائی تھی شناسائی
ذرا سا وہ بھی سزاوار ہونا چاہیے تھا
فضا ہے حبس بھری تَو کُچھ اعتراض نہیں
خلا کو قدرے ہَوادار ہونا چاہیے تھا
زمیں کے نیلگوں ہونے سے کَیا بگڑ جاتا
یہ گرد باد فلک پار ہونا چاہیے تھا
مُجھے کہانی کا انجام یُوں پسند نہیں
کہ کُچھ تَو حاصلِ رفتار ہونا چاہیے تھا
ہر ایک پہلو سے لگتا ہے پارسا ہے بہت
وہ شخص کُچھ تَو گنہ گار ہونا چاہیے تھا
مرے دماغ کی دیوانگی سے کَیا ہوتا
ذرا سا دل کو سمجھدار ہونا چاہیے تھا
سمیرؔ کَیا کہ فقط درد ہے فراقِ یار
ذرا سا ہجر مزیدار ہونا چاہیے تھا
سمیرؔ شمس