قضا نے عمر کا یوں مختصر اُدھار دیا
ہوا کی زد پہ کوئی جیسے بے قرار دیا
کسی کی تیرہ نصیبی کہ تجھ سے کھائے فریب
تجھے فریب کا کس نے ہے اختیار دیا
نہ مدتوں سے سوالِ طلب نہ عرضِ نیاز
زوالِ شوق نے وحشت دی انتشار دیا
وہ ایک بات جو تیرے گمان تک میں نہیں
اس ایک بات پہ میں نے جہان وار دیا
بساط الٹ دی کہ ممکن تھی صرف فتحِ وجود
تری رضا کے جوئے میں جنوں کو ہار دیا
لگن کی آگ پہ پروانے جاں نثار ہوئے
ادائے عشق پہ شب بھر تھا اشک بار دیا
حنا تو پِس کے بھی اپنی وضع نہیں بھُولی
کہ جس ہتھیلی پہ پھیلی اُسے نکھار دیا
حنا بلوچ