آج کل ایک بات مجھے بہت پریشان کر رہی ہے۔ جب بھی میں کسی کے گھر جاتا ہوں اور سنتا ہوں کہ بچہ سیزیرین (C-section) کے ذریعے پیدا ہوا ہے، تو میرے ذہن میں یہ سوال اُبھرتا ہے: "یہ رجحان اتنا کیوں بڑھ گیا ہے؟ کیا واقعی ہر کیس میں سیزیرین ضروری ہوتی ہے، یا پھر ڈاکٹروں نے اسے ایک نیا کاروبار بنا لیا ہے؟”
میں نے اپنی زندگی میں وہ دور دیکھا ہے جب نارمل ڈلیوری ایک عام بات تھی۔ 90 کی دہائی میں، جب میں بچہ تھا، ہمارے گاؤں میں دائی ہوا کرتی تھیں، جو بہت ماہر تھیں۔ وہ بغیر کسی مہنگی دوا یا جدید مشینری کے، صرف اپنے تجربے اور ہاتھ کی صفائی سے بچوں کی پیدائش کروا دیتی تھیں۔
ہمارے خاندان اور پڑوس کے تمام بچے نارمل ڈلیوری کے ذریعے پیدا ہوئے۔ نہ اسپتال کے چکر لگتے تھے، نہ کوئی خوف کا ماحول ہوتا تھا، اور نہ ہی پیسوں کا لین دین۔ سب کچھ ایک فطری طریقے سے ہوتا تھا، جو تب سے چلا آ رہا ہے جب سے حضرت آدم علیہ السلام نے دنیا میں قدم رکھا تھا اور اسکي بعد انسان کي آني کا يي ايک واحد طريقا تها. اور ٢٠١٠ کي بہد سڀ الٽا هو گيا.
لیکن آج کا زمانہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ اب تو جیسے بچہ ماں کے پیٹ میں آتے ہی ڈاکٹرز منصوبہ بنا لیتے ہیں کہ اس کا سیزیرین ہوگا۔ لگتا ہے جیسے آج کے ڈاکٹرز نے انسان کے پیدا ہونے کا طریقہ ہی بدل دیا ہے!
یہ رجحان کیوں بڑھا؟
ضروری نہیں کہ ہر صورت میں آپریشن کی ضرورت ہو، لیکن پھر بھی، آج کل ہر دوسری عورت کے ساتھ یہی ہو رہا ہے۔ میرے خیال میں اس کے پیچھے کچھ خاص وجوہات ہیں:
1. ڈاکٹروں کا کاروبار:
سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اب یہ ایک منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ سیزیرین ایک مہنگا عمل ہے جس سے اسپتال کو زیادہ پیسے ملتے ہیں۔ نارمل ڈلیوری میں گھنٹوں لگ سکتے ہیں، لیکن آپریشن ڈاکٹر کے لیے آسان ہے – چند منٹوں میں کام ختم، اور آمدنی بھی زیادہ!
2. لوگوں کا خوف اور ڈاکٹروں کا مشورہ:
آج کے ڈاکٹرز نے لوگوں میں اتنا خوف بھر دیا ہے جیسے نارمل ڈلیوری زندگی کے لیے خطرہ ہو۔ پہلے مائیں اپنے جسم پر بھروسہ کرتی تھیں، آج لوگ صرف ڈاکٹر کی رائے پر یقین کرتے ہیں۔ ہر بار سننے کو ملتا ہے:
"رسک ہے، آپریشن کرنا پڑے گا۔”
3. آرام طلب زندگی:
پہلے کی عورتیں کھیتوں میں کام کرتی تھیں، پانی بھر کر لاتیں، اور گھر کے کام کاج کرتیں۔ اس سے ان کا جسم مضبوط ہوتا تھا اور ڈلیوری میں آسانی ہوتی تھی۔ آج کل کی آرام دہ زندگی اور جسمانی حرکت کی کمی نے نارمل ڈلیوری کو مشکل بنا دیا ہے۔
4. دائیوں کا خاتمہ:
سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ دائیوں کا پیشہ اب ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پہلے ہر گاؤں میں ایک دائی ہوتی تھی جو نہ صرف ماں کا خیال رکھتی تھی بلکہ اپنے تجربے، دعاؤں، اور حوصلے سے ماں کو ہمت بھی دیتی تھی۔ آج لوگوں کا بھروسہ صرف اسپتال پر ہے۔
فطری اور سیزیرین پیدائش کا فرق:
کچھ دہائیوں پہلے، جو بچے نارمل ڈلیوری سے پیدا ہوتے تھے، وہ زیادہ صحتمند ہوتے تھے۔ ان کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا تھا، کیونکہ ماں کے پیدائشی راستے سے گزرنے پر انہیں بہت سی قدرتی قوتیں ملتی تھیں۔ آج جو بچے آپریشن سے پیدا ہوتے ہیں، ان میں کچھ صحت کے مسائل زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے سانس لینے میں دشواری، کمزور مدافعتی نظام، اور الرجی۔
علامہ اقبال کا پیغام:
اقبال کی شاعری انسان کو اپنی فطرت اور خودی پر بھروسہ کرنے کی تلقین کرتی ہے۔ جیسے کہ وہ کہتے ہیں:
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
یہ شعر ظاہر کرتا ہے کہ صرف عقل، علم، یا سائنس پر بھروسہ کافی نہیں ہے؛ انسان کو اپنی اندرونی روشنی اور فطرت پر بھی اعتماد کرنا چاہیے۔ ترقی کے نام پر جو راستہ ہم نے اختیار کیا ہے، وہ اکثر ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔
سوچنے کا مقام:
اگر ماں کو صحیح طریقے سے تیار کیا جائے اور اس میں خود پر اعتماد پیدا کیا جائے، تو آج بھی بہت سی نارمل ڈلیوریاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن جب ڈاکٹر پہلے ہی کہہ دے کہ "آپریشن ہی بہتر ہے”، تو ماں اپنی ہمت اور خودی کھو بیٹھتی ہے۔
یہ سوچنے کی بات ہے:
کیا ہم نے قدرت پر بھروسہ کرنا چھوڑ دیا ہے؟
یا پھر ہم نے اپنی آسانیوں کو ترجیح دے کر ایک نئے کاروبار کو جنم دیا ہے؟
اگر ہم واقعی اس مسئلے کو سمجھیں اور لوگوں کو آگاہ کریں، تو شاید ہم پھر سے اپنے بچوں کو اس فطری طریقے سے دنیا میں آتا دیکھ سکیں، جو ازل سے چلا آ رہا ہے۔
انور علی