وہ کہنے کو تو ہے میرا مسیحا
مگر اس میں مسیحائی نہیں ہے
تماشا کس کو دکھلائیں ہنر کا
کوئی بینا تماشائی نہیں ہے
مجھے حاصل جہاں کی نعمتیں ہیں
مگر دل کو شکیبائی نہیں ہے
اٹھاؤ ناز و نخرے تتلیوں کے
بدن میں اب توانائی نہیں ہے
فدا ہونے سے کچھ پرہیز برتو
فدا ہونے میں دانائی نہیں ہے
خطا تسلیم کر لینا خطا پر
کسی بھی طور پسپائی نہیں ہے
جہاں آباد ہے کچھ اس طرح سے
میسر کنجِ تنہائی نہیں ہے
کہوں احوال کیسے دوسروں کے
مِری خود سے شناسائی نہیں ہے
سلیم فائز