تری سہیلی بھی جیسے کوئی پہیلی ہے
کبھی خموش کبھی خوش کبھی وہ افسردہ
نہ اس کا دوست کوئی اور نہ کوئی ہمراز
بس ایک تیری رفاقت میں کھوئی رہتی ہے
تری سہیلی کی آنکھوں میں جو پہیلی ہے
عجب نہیں ہے کہ صدیوں سے اضطراب میں ہے
میں اس پہیلی کی بے تابیاں سمجھتا ہوں
کہ جیسے گل کوئی سہما ہوا ہو پتوں میں
کہ جیسے قوسِ قزح دن سے دور ہو جائے
کہ جیسے شب میں ستاروں کو چھپ کے ملنا ہو
سنا ہے سسی کی ایسی ہی اک سہیلی تھی
شبِ فراق جو پنوں کا روپ اپنا کر
وصالِ یار کی صورت نکال لیتی تھی
وہ کوئی ہجر کی بے خواب رات تھی جس میں
یہ بے قرار پہیلی کھلی تھی پنوں پر
جو اس نے اپنی محبت کو اپنے سینے میں
اور اپنے آپ کو صحرا میں دفن کر ڈالا
تری سہیلی کی آنکھوں میں جو پہیلی ہے
لگن ہے یا تھا کوئی تجربہ لڑکپن کا
جسے وہ آج بھی دل سے بھلا نہیں پائی ؟
ترے نصیب میں سسی کی بے زبانی ہے
نہ میرے عشق میں پنوں کی جلد بازی ہی
اگرچہ سچ کی سزاوار ہے مری چاہت
مجھے قبول ہے جو بھی تری وضاحت ہے
مرے نصیب میں ہو یا تری سہیلی کے
مرے لئے تو محبت فقط محبت ہے
سعید خان