- Advertisement -

آئی ہے اس کے کوچے سے ہوکر صبا کچھ اور

میر تقی میر کی ایک غزل

آئی ہے اس کے کوچے سے ہوکر صبا کچھ اور
کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور

تدبیر دوستوں کی مجھے نفع کیا کرے
بیماری اور کچھ ہے کریں ہیں دوا کچھ اور

مستان عشق و اہل خرابات میں ہے فرق
مے خوارگی کچھ اور ہے یہ نشہ تھا کچھ اور

کیا نسبت اس کی قامت دلکش سے سرو کو
انداز اس کا اور کچھ اس کی ادا کچھ اور

مانجا جو آرسی نے بہت آپ کو تو کیا
رخسار کے ہے سطح کی اس کے صفا کچھ اور

اس کی زیادہ گوئی سے دل داغ ہو گیا
شکوہ کیا جب اس سے تب ان نے کہا کچھ اور

اس طور سے تمھارے تو مرتے نہیں ہیں ہم
اب واسطے ہمارے نکالو جفا کچھ اور

صورت پرست ہوتے نہیں معنی آشنا
ہے عشق سے بتوں کے مرا مدعا کچھ اور

مرنے پہ جان دیتے ہیں وارفتگان عشق
ہے میر راہ و رسم دیار وفا کچھ اور

میر تقی میر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
میر تقی میر کی ایک غزل