- Advertisement -

انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں

ایک اردو کالم از محبوب صابر

” انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں”

کتاب اور حقیقی زندگی میں موجود بیشتر شخصیات اُس خاکے سے قطعی مختلف ہوتی ہیں جسے دلکش الفاظ کا بے داغ لباس پہنا کر اُس شخصیت کی عمدہ ترین تصویر کشی کی جاتی ہے یا پھر وہ خود جس انداز میں اپنے آپ کو اپنی تحاریر میں ظاہر کر رہیے ہوتے ہیں- میرے خیال میں ایک بہت بڑا جذباتی اور تجزیاتی خلا جو نہ صرف عام انسانوں بلکہ اعلی تعیلم یافتہ اذہان میں بھی کثرت سے پایا جاتا ہے وہ ہے حقیقی زندگی اور اس سے وابستہ تقاضوں سے عمومی بے خبری یا یکسر فرار ہو کر ایک ایسی تخیلیاتی اور افسانوی دُنیا کی تلاش جہاں بے عیب اور اعلی ترین اخلاقیات سے مزین افراد کی بہتات ہو- جو ایثار، محبت و یگانگت، وضع داری، حلم، برداشت اور باہمی عزت و تکریم سے مالا مال ہوں- جہاں بھوک و افلاس اور محرومیاں بھی ادائے بے نیازی سے کپڑوں پر لگی دھول کی طرح با آسانی جھاڑ دی جائیں- جہاں چوٹ لگے تو درد سے کراہنے کی بجائے ہونٹوں پہ مسکراہٹیں سجائے ہر کوئ درگزر کا راگ الاپتے ہوئے جھومتا پھرے-جہاں عزتِ نفس کا مجروح ہوجانا محض معمولی سی بات ہو اور ایسے جرم کا ارتکاب کرنے والے کو باآسانی معاف کر دیا جائے- جھوٹ کو ایسا نایاب خزانہ تصور کر لیا جائے جس کی کھوج میں بنی نوع انسان اپنی تخلیق سے لیکر آج تک سرگرداں ہے اور یہ کسی کے ہاتھ نہیں آ سکا لہذا اس پر ردِ عمل لا یعنی سی بات ہے
رشتوں میں منافقت، اُن کی حق تلفی اور محض مادی بنیادوں پر اُن سے فاصلہ رکھنے کو ایک صحت مند نفسیاتی مشغلہ تصور کر لیا جائے اور جب اُن نظر انداز کیے جانے والوں کی ضرورت پڑے تو اُن کی طرف راغب ہونے ہر اُن بے چاروں کو دبا سا گلہ کرنے کی بھی جرات نہ ہو- جہاں حساسیت کی ہر تعریف اس انداز میں ہو کہ صرف اپنی ذات ہی کا تحفظ مقصود ہو اور کسی کی بھی دل ازاری اور بدزبانی کے جواب میں دوسرے شخص کو اپنے منصب اور اعلی تربیت کی بنیادوں پر خاموش رہنے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو- جہاں روایات کی پاسداری کا لحاظ خود کو آگ میں جھونک کر کئے جانے میں پزیرائی ملتی ہو – جہاں مہمان نوازی کیلئے خود کو گروی رکھنے میں احساسِ تفاخر ہو اور بے وقت، بے محل اور پیشگی اجازت طلب کئے بغیر کسی کے گھر چلے جانے اور میزبان سے بھر پور اور محبت بھرا استقبالیہ وصول کرنے کو تہذیب تصور کیا جاتا ہو-
لفظوں سے تعمیر کی جانے والی بلند مرتبت شخصیات ، معاشرتی آداب و رسومات اور اعلی اخلاقی اقدار عملی زندگی اور حقیقت میں ایک دوسرے سے باالکل مختلف ہوتی ہیں- جب بھوک لگتی ہے تو دنیا کی بڑی سے بڑی نعمت بھی کھانے کا نعم البدل نہیں ہو سکتی- کرب اور دکھ کی کیفیات میں خوشیوں کا جمِ غفیر بھی چہرے پر ایک پھیکی سی مسکراہٹ لانے سے قاصر ہے- اعتماد ٹوٹنے اور دل شکنی کے نتیجے میں کہے گئے الفاظ یا ردِ عمل کبھی بھی شائسگی کا مظہر نہیں ہو سکتے-ناکامی کو کسی طور بھی نہ تو خوش دلی سے قبول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فی الفور برداشت- اپنی ضروریات کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کیلئے کر گزرنے کے بعد صلے کی توقع نہ بھی ہو تو ہلکی سی پذیرائی کی اُمید بھی عین فطری ہے- ٹھکرائے جانے یا نظر انداز کئے جانے پر کوئی بھی ایسا کرنے والے کو توصیفی کلمات سے نہیں نوازے گا- محبت جیسے رشتے میں بھی کسی ایک فریق کا دوسرے فریق پر تسلط اور ذاتی معاملات میں بلا جواز مداخلت تعلقات میں کشیدگی یا اختتام پر منتج ہوتا ہے-
حتی کہ شاعری اور افسانوں میں بیان کی گئی کائنات کی حسین ترین عورت جس کی مہک اور لمس پر ہزار بار مر مٹنے کو جی چاہتا ہے اُس کے منہ یا جسم سے پھوٹنے والی نا خوشگوار باس اُس کے ساتھ اختلاط کے حسین ترین عمل کو بھی بیزاری میں بدل دیتی ہے- رشتوں کے مابین رنجشیں اور اُن کا اظہارہمشہ نامناسب ہی ہوگا- اپنی اولاد کے مقابلے میں دوسروں کے بچوں کیساتھ یکساں سلوک اور انصاف کا دعوی سستی شہرت کا حصول تو ہو سکتا ہے قلی طور پر قابلِ عمل ہر گز نہیں-عفو درگزر کی تلقین جتنی آسان ہے بدلہ نہ لینے کی خواہش اُتنی ہی مشکل اورتکلیف دہ ہے
تہذیبِ انسانی کے ارتقاء میں بہت سے عوامل کارفرما رہے کم و بیش سبھی معاشروں نے اس ضمن میں جو عمومی اصول وضع کیے اُن کی بنیاد مقامی رسوم و رواجات، عادات و اطوار، باہمی میل ملاپ اور آپسی لین دین پر ہی استوار کی گئ- فلسفے اور دیگر عمرانی علوم کی ترقی کے ساتھ ساتھ یہ ہی سب باتیں تہذیبِ انسانی کے ارتقاء کا بھی سبب بنیں- باالخصوص انقلابِ فرانس کے بعد یورپ کے معروضی، معاشرتی اور سیاسی حالات میں بڑی مظبوط اور مثبت تبدیلی آئی- پارلیمنٹ اور چرچ کے دائرہ کار اور اختیارات کے مابین ایک واضع لکیر کھینچ دی گئ اور حقوقِ انسانی کی اہمیت پر ہر کونے سے آوازیں بُلند ہونے لگیں تو انسانوں کے مابین اخلاقی اقدار کو بھر پور طریقے سے اُجاگر کر نے کی مہم کا آغاز ہوا- کتاب اور لفظ کی سحر آفرینی سے معاشرتی آداب، باہمی حقوق و فرائض اور بین الاقوامی تعلقات اور شائستگی پر زور دیا جانے لگا- ادبِ لطیف، موسیقی، مصوری اور شاعری پر ایک بار پھر سے بھر پور توجہ دی جانے لگی تاکہ افراد کی تربیت کی جا سکے اور اس ضمن میں سوویت یونین موجودہ روس نے اس مہم میں بھر پور کردار ادا کیا-مگر اس کیساتھ ہی اس تہذیبی ترقی کی کوششوں کے دوران ہی ایٹم بم گرانے اور بین الاقوامی جنگوں کا جنون بھی عالمِ انسانیت نے اپنی تباہی کی صورت دیکھا-
اس میں کوئی شک نہیں کہ کتاب نے انسانی زندگی میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور انسانی ریوں میں ایک شائستہ انقلاب برپا کرنے کا موجب بنی- شاعری، مصوری، موسیقی اور رومانوی ادب نے انسانوں میں موجود حیوانی جذبات کی تزئین و آرائش کر کے اُن سے مثالی معاشروں کی تشکیل کی- افراد کو عزت و وقار سے جینے کے آداب سکھائے مگر ان سب باتوں کے باوجود کتاب اور الفاظ میں مقید کرداروں کی تلاش اور بیان کی گئی اخلاقیات کو بعینہہ اور حرف بہ حرف حقیقی انسانوں پر منطبق کرنا یا اُن سے اُسی رومانوی اخلاقیات کی توقع کرنا کسی طور بھی انصاف پسندی یا دانشمندی نہیں- میں یہاں اخلاقی انحطاط، بد عملی یا بے لگام سماجی ریوں کی دلالت نہیں کر رہا اور نہ ہی دوہرے معیار کی ترویج کا درس دینے کی جسارت کر رہا ہوں- بس سوال یہ ہے کہ کیسے فطری کمزوریوں اور جبلی خامیوں سے صرفِ نظر کیا جا سکتا ہے؟ ہم کیسے کسی سے کہہ سکتے ہیں کہ اُس سے کسی خاص رویے، عمل یا گفتگو کی توقع نہیں تھی- انسان بہت سی جہات کے مجموعہ کا مرکب ہے ممکن ہے جس بات پر وہ مسکرا رہا ہو وہی بات کوئی دوسرا اُس سے کہے تو وہ سیخ پا ہوجائے۔ حتمی اصول تو مشینوں کے ہوتے ہیں انسانوں کیلئے ممکن نہیں- بجلی کے بٹن پر کسی کی بھی انگلی لگے گی وہ کام کرے گا- گاڑی کے اگنیشن میں چابی ڈال کر اُسے کوئی بھی گھمائے گا وہ سٹارٹ ہو جائے گی کہ وہ کسی خاص لمس سے آ شنا نہیں- اس لیئے ہمیں انسانوں سے توقعات کیساتھ ساتھ اُن کے معروضی حالات، ذہنی کیفیات، ذاتی اور اجتماعی رحجانات کا ادراک بھی ہونا چاہیئے- ہر منصف جب تک مجرم کی جگہ کھڑا ہو کر نہیں سوچے گا وہ بہتر انصاف فراہم نہیں سکے گا- اور جب تک ہم انسانوں کو مافوق الفطرت، اکمل و کامل، اور غلطی سے مبرا تصور کرتے رہیں گے کبھی بھی ایک متوازن معاشرے کا قیام عمل میں نہیں آ سکے گا- دس بار بھی کوتاہیوں سے درگزر کر کے اگر ایک انسان بچا لیا جائے تو زندگی کا قرض ادا کرنے کیلئے کافی ہے

محبوب صابر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.

سلام اردو سے منتخب سلام
ایک اردو کالم از محبوب صابر