مرے سوزِ دل کے جلوے یہ مکاں مکاں اجالے
مری آہِ پر اثر نے کئی آفتاب ڈھالے
مجھے گردشِ فلک سے نہیں احتجاج کوئی
کہ متاعِ جان و دل ہے تری زلف کے حوالے
یہ سماں بھی ہم نے دیکھا سرِ خاک رُل رہے ہیں
گل و انگبیں کے مالک مہ و کہکشاں کے پالے
ابھی رنگ آنسوؤں میں ہے تری عقیدتوں کا
ابھی دل میں بس رہے ہیں تری یاد کے شوالے
مری آنکھ نے سنی ہے کئی زمزموں کی آہٹ
نہیںبربطوں سے کمتر مئے ناب کے پیالے
یہ تجلیوں کی محفل ہے اسی کے زیرِ سایہ
یہ جہانِ کیف اس کا جسےوہ نظر سنبھالے
یہ حیات کی کہانی ہے فنا کا ایک ساغر
تو لبوں سے مسکرا کر اسی جام کو لگا لے
ساغر صدیقی